Uploaded by Anmol AD

نظریہ پاکستان (3)

advertisement
‫اسالمی جمہوریہ‬
‫پاکستان کی بنیاد‬
‫‪.‬‬
 Presented by




Laiba Ghaffar
Sobia Mushtaq
Zurwah Mateen
Humaima Tariq
 Presented to
 Miss Arfa Arshad
‫فہرست مضامین‬
‫*نظریہ پاکستان‬
‫*نظریہ پاکستان کی اساس‬
‫*قائد اعظم اور نظریہ پاکستان‬
‫*عالمہ اقبال اور نظریہ پاکستان‬
‫نظریہ پاکستان‬
‫تاریخ‬
‫ہر کام کا اغاز ایک خیال ایک تصور سے ہوتا ہے اس خیال کو اس کام کا نظریہ کہتی ہیں اسی‬
‫طرح پاکستان کا ایک نظریہ ہے جو کہ برصغیر کے مسلمانوں کے ذہن میں پاکستان کے حصول‬
‫کے لیے پیدا ہوا جو باالخر تشکیل پاکستان کا باعث بنا دوسرے الفاظ میں ہم نظریے پاکستان‬
‫کو وہ بنیاد کہہ سکتے ہیں جس پر پاکستان کی عمارت استوار ہو‬
‫یہ نظریہ راتوں رات کسی کے ذہن میں نہیں ایا بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخی پس‬
‫منظر ہےاس میں ماضی قریب میں انگریز دور حکومت کے دوران ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ‬
‫حتک انگیز رویہ تھا جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان دانشور یہ سوچنے پر مجبور ہو‬
‫گئے کہ انگریز سے ازادی کے بعد بھی مسلمان ایک بدتر غالمی میں جکڑے جائیں گے اور وہ‬
‫بھی ہندوؤں کی غالمی لہذا اس خطرے کے پیش نظر دور اندیش مسلمانوں نے ایک الگ وطن‬
‫کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اگر اس تاریخ کو ذرا ماضی کی گہرائیوں تک لے‬
‫جائیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہندوستان کبھی ایک متحدہ ملک نہیں رہا بلکہ یہ چھوٹی‬
‫چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا اور ہر ریاست کے اپنے اپنے مہاراجہ تھے حدود کے اندر مقید‬
‫ہونے کے باوجود برصغیر کے اندر بسنے والے لوگ ایک قوم کی حیثیت سے نہیں رہ رہے تھے‬
‫مثال جرمن کے لوگ جرمن انگلستان کے لوگ انگریز وغیرہ بلکہ یہ مختلف قوموں کا مربع تھا‬
‫جس میں ہر قوم بالخصوص مسلمانوں اور ہندوؤں کا اپنا جداگانہ تشخص رسم و رواج اور مذاہب‬
‫تھے‬
‫انوں نے تقریبا ایک ہزار سال ہندوستان پر حکومت کی اور اپنے‬
‫چھا جانے والے دین اسالم اور اخالق سے الکھوں ہندوؤں کو‬
‫مسلمان بھی کیا حتی کہ مسلم کلچر ہندوستان کا جز بن‬
‫گیا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا یہ دعوی ہے کہ وہ ہندو‬
‫کلچر میں خلط ملط نہیں ہونے والے بلکہ ایک الگ قوم کی‬
‫حیثیت رکھتے ہیں تقسیم بنگال کی مخالفت انگریزوں کا پٹھو‬
‫پن کر حکومتی عہدوں کے حصول انڈین کانگرس نامی پہلی‬
‫سیاسی تنظیم انگریز تسلط کی راہ ہموار کرنا چند بڑی بڑی‬
‫وجوہات تھیں جن کی بنا پر نظریہ پاکستان ذہنوں میں ابھرنا‬
‫ایک بالکل فطری عمل تھا جس سے کوئی نہیں روک سکتا‬
‫تھا‬
‫قائد اعظم نے ہندوؤں کا رویہ دیکھا تو وہ بھی اس بات‬
‫کے قائل ہو گئے کہ برصغیر کی جغرافیائی حدود میں‬
‫رہنے والے سب کے سب ایک ہی قوم قوم کے افراد نہیں‬
‫میں اتا ہے علی مرحوم نے لندن سے اور اسی بات کو‬
‫قائد اعظم نے الہور میں مسلم لیگ کے ساالنہ اجالس‬
‫میں قرارداد کی صورت میں منظور کروایا ‪1940‬مارچ ‪23‬‬
‫جسے قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا اس قرارداد نے‬
‫کانگرس کے صفوں میں بے حد زیادہ بے چینی پیدا کر‬
‫دی لیکن مسلم لیگ کا موقف بالکل واضح ہو گیا کہ‬
‫برصغیر کے مسائل کا حل سوائے اس تسکین کے اور‬
‫کچھ نہیں ہیں کیا ہم پاکستان کے تصور اور اس کے‬
‫امکان مسلمانوں نے ایک نیا ولولہ اور تازہ جوش پیدا کر‬
‫دیا اور ان کے بے حد نمایاں اکثریت قائد اعظم کی اواز پر‬
‫لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو‬
‫گئی اور باالخر مسلمانوں کی ال تعداد قربانیوں کے بعد‬
‫پاکستان معجزے وجود میں اگیا‬
‫نظریہ پاکستان‬
‫لغوی معنی ‪:‬‬
‫ضابطہ یا پروگرام‬
‫اصطالحی معنی‬
‫نظریے سے مراد ایسا ضابطہ یا پروگرام جس کی بنیاد‬
‫فلسفہ تفکر پر رکھی گئی ہو اور انسانی زندگی کے‬
‫مختلف پہلوؤں مثال سیاسی معاشرتی اور تہذیبی مسائل‬
‫کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بنایا گیاہو‬
‫ورلڈ انسائیکلوپیڈیا کی تعریف کی رو سے‬
‫نظریہ سیاسی اور تمدنی اصولوں کا مجموعہ ہے جس پر‬
‫کسی قوم یا تہذیب کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں‬
‫ڈاکٹر چارج براز کے الفاظ میں‬
‫عام زندگی کا ضابطہ یا کوئی پروگرام جس کی بنیاد فکر و‬
‫فلسفہ پر استوار ہو کیا کہالتا ہے‬
‫نظریے کے ماخذ‬
‫‪-1‬مشترکہ مذہبمذہب‬
‫محض چند عبادات کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ پوری معاشرتی زندگی پر گہرے اثرات رکھتا ہے‬
‫ہر مذہب نے سماجی تعلقات کو مخصوص نظریات کی روشنی میں استوار کیا ہے‬
‫‪-2‬مشترکہ نسل‬
‫مشترکہ نسل سے مشترک نظریات جنم‪-‬ایک ہی نسل کے لوگوں میں ہمدردی اور اخوت کے‬
‫جذبات کا پروان چڑھنا عین فطری عمل ہے ہم نسلی ایک مضبوط مندھن ہے جو مشترک نظریات‬
‫کے باعث انسانوں کو خونی رشتوں میں منسلک کیے ہوئے ہے‬
‫‪-3‬مشترکہ زبان اور رہائش‬
‫زبان ہی کے ذریعے لوگ اپنے جذبات و احساسات اور خیاالت دوسروں تک پہنچاتے ہیں جس سے‬
‫نئے نظریات تشکیل پاتے ہیں لوگوں کے طور طریقوں اور نظریات میں یکسانیت کافی حد تک‬
‫مشترکہ رہائش کا مرہون منت ہے‬
‫‪-4‬مشترکہ سیاسی مقاصد‬
‫دور حاضر کی بیشتر قومویں اپنے مشترکہ سیاسی مقاصد اور سیاسی نظریات‬
‫کی بدولت اپنی قومی زندگی کی بقا کے لیے ازادی حاصل کرنے کی کوشش‬
‫میں لگی ہوئی ہیں تاکہ وہ مضبوط قوم کاروپ دھار سکیں‬
‫‪-5‬مشترکہ رسم و رواج‬
‫ہردور میں نظریات کی تشکیل میں مشترکہ رسم و رواج کا بڑا عمل دخل رہا ہے مشترکہ‬
‫رسم و رواج کی وجہ سے لوگوں میں ثقافتی اور فکری اعتبار سے نظریاتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے‬
‫نظریے کی اہمیت‬
‫انسان ایک مقصد کے تحت دنیا میں ایا ہے یہ مقصد زندگی کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی‬
‫قوموں کے وجود کا پتہ ان کے نظریہ سے ہوتا ہے نظریات قوموں میں مقصد کا شعور پیدا کرتے ہیں اور‬
‫نظریات سے ہی قوم میں کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہوتی ہیں کسی سیاسی معاشی معاشرتی‬
‫یا سکافتی تحریک کو بنیاد فراہم کرتا ہے نظریہ انسانی زندگی کا محور اور اس کی قوت محرکہ کا‬
‫دوسرا نام ہے نظریہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نظم و ضبط دیتا ہے یا انسان کے ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے یا ایک روپ کی مانند ہے جو کہ نظر نہیں اتا لیکن‬
‫اقوام اسی کی بدولت زندہ اور متحرک نظر آتی ہیں پر کوئی قوم اپنے نظریے کو نظر انداز کر دے تو اس‬
‫کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور کوئی دوسرا نظریہ اسے اپنے اندر ضم کرنے کے لیے کوشاں ہو جاتا‬
‫ہے‬
‫نظریہ پاکستان کی تعریف‬
‫نظریہ پاکستان قران و سنت کے اصولوں پر مبنی معاشرہ کی تخلیق کا نام ہے‬
‫نظریہ پاکستان اسالم کے اصولوں پر عمل کرنے اور ایک تجربہ کا کے حصول کے لیے‬
‫سوچ کا نام ہے‬
‫نظریہ پاکستان مسلمانوں کی سیاسی معاشرتی ثقافتی اور معاشی قدروں کی‬
‫حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا نام ہے‬
‫ملی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان میں اسالم کی حکمرانی اور اتحاد بین‬
‫المسلمین کی عملی کوشش کا نام نظریہ پاکستان ہے‬
‫نظریہ پاکستان ایک ایسی ریاست کے قیام کا نام ہے جہاں عوامی فالح و بہبود کا‬
‫خیال رکھا جائے‬
‫نظریہ پاکستان مفکرین کی نظر میں‬
‫ڈاکٹر اسلم سید‪:‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید کے مطابق‪:‬‬
‫نظریہ پاکستان سے مراد انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسالم کے مطابق ڈھالنا “‬
‫”ہے۔‬
‫ڈاکٹر سید عبدہللا‬
‫ڈاکٹر سید عبدہللا کے مطابق‪:‬‬
‫نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ سے ماخوذ ہے یعنی ہندو اور مسلمان دو الگ‬
‫قومیں ہیں ہیں مسلمانوں کی تہذیب معاشرت اور اخالقیات منفرد ہیں اور‬
‫مسلمانوں کی قومیت اسالم‬
‫ہے‬
‫نظریہ پاکستان کا مفہوم‬
‫پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد ایک فلسفہ‬
‫حیات پر استوار کی گئی یہ فلسفہ دین اسالم ہے پاکستان‬
‫کی تمام تر اساس دین اسالم ہے اور اس کا سرزمین پر نفاس‬
‫صدیوں تک رہا ہے یہی وہ الحیہ عمل ہے اور جذبہ ہے جو‬
‫تحریک پاکستان کا موجب بنا نظریہ پاکستان اور اسالمی نظریہ‬
‫حیات کو ہم معنی قرار دیا جاتا ہے بال شبہ اسالمی نظریہ‬
‫حیات نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے‬
‫نظریہ پاکستان کی اساس‬
‫پاکستان کے نظریے کی اساس دین اسالم ہے ‪.‬‬
‫اسالم کا معاشی‪ ،‬معاشرتی‪ ،‬سیاسی اور مذہبی نظام رواداری انصاف‪ ،‬بھائی چارے اور‬
‫فالحی انسانیت کے اصولوں پر استوار ہے اس لیے اسالمی نظام حیات زندگی کے‬
‫تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور مسلمانوں کی تمام شعبہ ہائے زندگی کے شعبوں‬
‫میں رہنمائی کرتا ہے۔‬
‫یہی پاکستان کی بنیاد قرار پایا برصغیر پاک و ہند کے مسلمان انگریز دور میں غالمی‬
‫کی زندگی بسر کر رہے تھے وہ ازادی اور خود مختاری چاہتے تھے لیکن انہیں اپنے‬
‫مقصد کے حصول میں کامیابی نظر نہیں آرہی تھی لہذا بڑے غور و فکر کے بعد فیصلہ‬
‫کیا گیا کہ برصغیر کے مسلم اکثریتی عالقوں پر مشتمل ایک مسلم مملکت قائم کی‬
‫جائے۔لہذا یہی سوچ مسلمانوں کا نصب العین بن گئی اور منزل مقصود کو پانے کے‬
‫لئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے تحریک شروع کی۔ علیحدہ اسالمی مملکت‬
‫کا قیام ایک مقصد بنا اور یہی مقصد نظریہ پاکستان کی تخلیق کا باعث بنا‪.‬‬
‫نظریہ پاکستان کی اساس‬
‫پاکستان اسالمی نظریہ حیات پر مبنی ہے‪.‬‬
‫مندرجہ ذیل اسالمی اقدار نظریہ پاکستان کی اساس ہیں۔‬
‫*عقائد و عبادات‬
‫*جمہوری روایات کو فروغ‬
‫* مساوات اور معاشرتی انصاف‬
‫*شہریوں کے حقوق و فرائض‬
‫*اخوت و بھائی چارہ‬
‫عقائد و عبادات‬
‫پاکستان کے مطالبے کے پس منظر میں یہ ایک سوچ کار فرما تھی کہ مسلمان‬
‫اپنی زندگیاں اپنے عقائد کے مطابق گزار سکیں انہیں عبادت کی ادائیگی میں‬
‫کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو ۔‬
‫مسلمانوں کے عقائد درج ذیل ہیں‬
‫*توحید‬
‫*رسالت‬
‫*یوم اخرت پر ایمان‬
‫*فرشتوں پرایمان‬
‫*الہامی کتابوں پر ایمان‬
‫عقائد و عبادات‬
‫عبادات میں نماز‪ ،‬روزہ زکوۃ ‪،‬حج شامل ہیں‪.‬‬
‫جن کی ادائیگی ان پر فرض ہے ہللا تعالی کی عظیم ہستی کے لیے اپنی جان اور‬
‫مال کو قربان کرنا جہاد کہالتا ہے۔‬
‫لہذا جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے‬
‫عبادات کا مقصد اپنے اپ کو ہللا کی منشاء کا پابند بنانا ہے اور کسی دوسرے کا‬
‫محتاج بننے سے روکنا ہے۔ یہ کردار ایک مثالی اسالمی ریاست اور معاشرے کی‬
‫تشکیل میں اہمیت کا حامل ہے‬
‫مساوات اور معاشرتی انصاف‬
‫اسالم ایک پرامن دین ہے۔ایک منصفانہ معاشرےکا قیام عمل میں التے ہوئے مسلمانان بر‬
‫معاشرے میں ذات پات رنگ نسل اور زبان و ثقافت کی تمیز روا رکھے بغیر ان تمام‬
‫مسلمانوں کو برابر درجہ دیے جانے کا عزم کیا گیا ہے ریاست میں سب افراد کے لیے‬
‫مساوی قانون اور یکساں عدالت عدلیہ اور قانون کی حکمرانی عوام میں مساوات اور‬
‫انصاف کے قیام کی بنیادی شرائط ہیں ۔اسالمی ریاست نے انصاف کی سربلندی پر زور‬
‫دیا۔ صغیر نے عدل اور سماجی مساوات پر زور دیا‬
‫حضرت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم نے اس حقیقت کو خطبہ حجتہ الوداع میں یوں بیان‬
‫فرمایا ہے‪:‬‬
‫" اے لوگو تم سب کا پروردگار ایک ہے اور تم سب آدم کی اوالد ہو پس کسی عربی‬
‫کو عجمی پر‪ ,‬عجمی کو عربی پر ‪,‬کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو‬
‫گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے"‬
‫مساوات اور معاشرتی انصاف‬
‫اسالم عورتوں کو بلند مقام دیتا ہے۔ عورت کی ماں‪ ،‬بیٹی ‪،‬بیوی‪ ،‬بہن غرض ہر کردار میں‬
‫عظمت بیان کی گئی ہے۔‬
‫قران میں عورتوں کے حقوق کا کام مردوں سے پہلے ذکر موجود ہے۔ اسالم نے انہیں وراثت‬
‫میں حصہ دار قرار دیا ہے اسالمی معاشرہ بوڑھوں‪ ،‬ناداروں ‪ ،‬یتیموں اور بیواؤں کی‬
‫ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔‬
‫اسالمی حکومت میں دولت کو چند ہاتھوں میں روکا نہیں جاتا بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم‬
‫کی جاتی ہے ۔جس سے معاشرتی انصاف کو فروغ ملتا ہے ۔پاکستان بنانے کا فیصلہ ان‬
‫تمام اقدار کی تکمیل کے لیے کیا گیا تاکہ اس عظیم مملکت خداداد میں اخوت ‪،‬بھائی‬
‫چارے‪ ،‬برداشت اور باہمی تعاون کے جذبوں کو فروغ دیا جا سکے۔‬
‫جمہوریت کا فروغ‬
‫اسالمی ریاست اور معاشرے کی بنیاد مشاورت ہے ۔‬
‫اسالمی معاشرے میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور عوام کے حقوق کا خیال رکھا جاتا‬
‫ہے اور وہ لوگ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ قانون سب کو تحفظ‬
‫فراہم کرتا ہے۔‬
‫مساوات قائم کی جاتی ہے ہر کام عوام کی بھالئی کے لیے کیا جاتا ہے۔ امیر المومنین اپنی‬
‫ذمہ داریاں نبھانے کا پابند ہوتا ہے وہ ہمیشہ ہللا کے احکام کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے‬
‫اور اقتدار کو اس عظیم ہستی کی منشاء کے مطابق چالتا ہے‬
‫پاکستان کو قیام میں عمل النے کا مقصد بھی درج باال جمہوری روایات اور تصورات کو عملی‬
‫شکل دینا تھا تاکہ ملک میں اسالمی اقدار کو اپنایا جائےاور مغربی جمہوریت کے تصور کی‬
‫حوصلہ شکنی کی جائے۔ کیونکہ یہ اسالمی جمہوریت کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے‬
‫جمہوریت کا فروغ‬
‫جمہوریت کے بارے میں قائد اعظم نے ‪ 14‬فروری ‪ 1948‬کو سبی کے مقام پر اپنے خطاب‬
‫قیام پاکستان کے غرض یوں بیان کی‪:‬‬
‫"آؤ ہم اپنے جمہوری نظام کو اسالمی رنگ میں اسالمی اصولوں کے‬
‫مطابق بنیاد فراہم کریں ہللا ذوالجالل نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اپنی‬
‫ریاستی امور کو باہم صالح مشورے سے طے کریں"۔‬
‫شہریوں کے حقوق و فرائض‬
‫اسالمی ریاست میں عوام کے حقوق و فرائض کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک فرد کا حق دوسرے کا‬
‫فرض بن جاتا ہے‬
‫حقوق و فرائض کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔‬
‫یہ ایک دوسرے کے لیے الزم و ملزوم ہوتے ہیں ۔ایک شخص ہمیشہ فرائض ادا کر کے حقوق حاصل‬
‫کرنے کے قابل بنتا ہے اسالمی ریاست میں کسی فرق و تمیز کے بغیر دنیاوی حقوق فراہم‬
‫کیے جاتے ہیں۔‬
‫حقوق ہمیشہ وہ سہولتیں ہوتی ہیں جو شہریوں کو ریاست فرائض کی ادائیگی کے بعد دیتی ہے‬
‫اسالم نے بھی حقوق کے حوالے سے کسی امیر‪ ،‬غریب‪ ،‬کالے ‪،‬گورے اور عجمی‪ ،‬عربی کا‬
‫فرق نہ کیا۔‬
‫پاکستان کے قیام میں ایک سوچ یہ بھی تھی کہ عوام کو یکساں حقوق اور اقلیتوں کو تحفظ ملے‬
‫کیونکہ اسالم یہ اجازت کسی صورت نہیں دیتا کہ اسالمی معاشرے میں زندگیاں بسر کرنے‬
‫والے کے جان مال اور مذہبی روایات کا تحفظ نہ کیا جائے ۔لہذا قیام پاکستان اسالمی معاشرے‬
‫کے قیام کی طرف ایک بہت بڑا قدم تھا تاکہ مسلمان اپنی زندگیاں مذہبی اصولوں کے مطابق‬
‫گزار سکیں۔‬
‫اخوت و بھائی چارہ‬
‫دین اسالم امن کا دائی ہے‪.‬‬
‫اور مسلمانوں کے مابین اخوت اور بھائی چارے کے جذبوں کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے۔‬
‫بھائی چارہ سے ہمیشہ محبت‪ ،‬خلوص‪ ،‬احسان‪ ،‬شفقت اور ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے‬
‫تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے‬
‫شریک ہیں اسالمی ریاست پاکستان کی تشکیل بھی اسی جذبے کے ساتھ ہوئی کہ‬
‫ملک میں اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے‬
‫قائد اعظم کا تعارف‬
‫بابائے قوم محمد علی جناح‪ ،‬ایک خوشحال تاجر پونجا جناح کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ان‬
‫کی تاریخ پیدائش ‪ 25‬دسمبر ‪ 1876‬بتائی جاتی ہے۔ابتدائی تعلیم گھر پہ حاصل کرنے کے‬
‫بعد آپ ” سندھ مدرستہ االسالم کراچی” میں تعلیم کے لئے بھیجے گئے۔‬
‫میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے والد کا رحجان انہیں تجارت کے میدان میں النے‬
‫کی طرف تھا جبکہ جناح خود بیرسٹر بننا چاہتے تھے۔‬
‫اس خواہش کی تکمیل کے لئے آپ انگلستان میں لنکنز ان میں چلے گئے اپنی انتھک محنت‬
‫سے آپ نے ‪ 1895‬میں ” بار ایٹ الء” کی ڈگری حاصل کی۔‬
‫آپ نے ‪ 19‬سال کی کم عمر میں ہیاس منزل تک رسائی حاصل کر لی۔‬
‫قائد اعظم کی فیملی‬
‫محمد علی جناح کی تین بہنیں ائی تھے اور تین‬
‫بھجن میں مادر ملت فاطمہ جناح سب سے‬
‫چھوٹی تھیں۔ قائد کی زوجہ رتن بائی سے ان کی‬
‫ایک بیٹی دینا جناح تھیں‬
‫ازادی کے لیے قائد اعظم کی کوشش‬
‫جناح ایک سیاستدان‪ ،‬بیرسٹر اور پاکستان کے بانی تھے۔آپ کی پرجوش قیادت اور‬
‫دوراندیشی کی بنا پر مسلمان اپنے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو‬
‫گئے۔‬
‫قائد اعظم ؒ کی اس پچاس سال پر مبنی سیاسی زندگی کی جدوجہد اور کوشش کا مرکز‬
‫اور محوریہ نظریہ تھا کہ بر صغیر جنوبی ایشی کے مسلمانوں کو سیاسی ‪ ،‬معاشی‪،‬‬
‫معاشرتی اور مذہبی حقوق سے بہرہ ور کر کے ان کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے‬
‫کے ساتھ ساتھ باوقار شہری بنایا جائے‬
‫پاکستان کی ازادی میں قائد اعظم کا‬
‫کردار‬
‫ائد اعظم ‪1930‬ء میں الگ مسلم مملکت کے قیام کا فیصلہ کر چکے تھے ۔‪1940‬ء تک قائد‬
‫اعظم نے حکمت عملی سے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر علیحدہ وطن کی جدوجہد کے‬
‫لئے تیار کر لیا۔جس کے نتیجے میں ‪ 23‬مارچ ‪ 1940‬کو الہور میں “منٹو پارک” میں‬
‫برصغیر کے مسلمانوں کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔‬
‫اس اجتماع میں ہندوستان بھر سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت‬
‫کی۔اس موقع پر ایک قرارداد منظور ہوئی جس کے مطابق مسلمانان ہند نہ صرف یہ کہ‬
‫انگریزوں سے آزادی چاہتے تھے بلکہ ہندوؤں سے بھی الگ ہونے کے خواہشمند تھے۔‬
‫قرارداد پاکستان میں پیش کئے گئے نکات میں سے اہم ترین نکات میں مسلمانوں کے‬
‫لئے آزاد مسلم حکومت کا قیام ‪ ،‬برصغیر کی تقسیم اور ہندو اکثریتی عالقوں میں‬
‫مسلمانوں کا تحفظ شامل ہیں‬
‫پاکستان ایک اسالمی ریاست قائدا اعظم‬
‫اور قرارداد مقاصد کی روشنی میں‬
‫قائد اعظم تحریک پاکستان کے قائد اور پاکستان کو جدید اسالمی‬
‫ریاست بنانے کے بڑے حامی تھے اپ نے‬
‫نظریہ پاکستان کی وضاحت ان الفاظ میں کی پاکستان تو اسی‬
‫روز وجود میں اگیا تھا جب ہندوستان پہ میں پہال ہندو مسلمان‬
‫ہوا تھا اپ پاکستان کی بانی جماعت ال انڈیا مسلم لیگ کے‬
‫سربرا بنے اور خود کو حصول پاکستان کے لیے وقف کر دیا اپ‬
‫نے مارچ ‪ 1940‬منٹو پارک الہور میں مسلم لیگ کے جلسے‬
‫سے خطاب کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی تشریح کی اور‬
‫فرمایا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستیاں جن کی کوئی قدر‬
‫مشترک نہیں لہذا مسلمانوں کے لیے ہللا مملکت کی ضرورت‬
‫ہے اجالس کے اختتام پر قائد قرارداد الہور منظور کروائے گی‬
‫جس میں الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا‬
‫پاکستان ایک اسالمی ریاست قائدا اعظم اور‬
‫قرارداد مقاصد کی روشنی میں‬
‫ہمارا رہنما اسالم ہے اور “سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا قائدا اعظم نے مارچ ‪ 1944‬میں طلبہ قوم‬
‫قائد اعظم نے چند دن بعد فرمایا اسے پاکستانی “یہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے‬
‫مسلمانوں کے ازادی اور اسالم کی شان و شوکت کا سامنا ہے قائد اعظم نے مسلم لیگ کے‬
‫وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک “‪ 1943‬کا ساالنہ اجالس منعقد کراچی میں فرمائیں‬
‫ہونے سے تمام مسلمان جد واحد کی طرح وہ کون سی چٹان ہے جس پر ملت کی عمارت‬
‫استوار ہے وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ ہے وہ رشتہ وہ چٹان اور وہ‬
‫قائد اعظم نے ‪ 1945‬میں پشاور میں طلبہ سے “لنگر ہللا تعالی کی کتاب قران مجید ہے‬
‫ہماری قوم ازادی حاصل کرنے کی اہل ہےجس میں اسالم کے ”خطاب کرتے ہوئے فرمایا‬
‫ظم نے ‪ 21‬مارچ ”اصولوں پر عمل درامد کرنا ممکن ہوگا نظریہ اسالم کی حفاظت ہو سکے گی‬
‫اپ سندھی “‪ 1948‬میں ڈھاکہ میں عوام سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ‬
‫بلوچی پنجابی پٹھان اور بنگالی بن کر بات نہ کریں کہنے میں کیا فائدہ کہ ہم پنجابی سندھی‬
‫قائد اعظم نے علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے نظریہ ”یا پٹانے ہم تو بس مسلمان ہیں‬
‫پاکستان کے مطالبے کا محرک اور مسلمانوں کے لیے ”پاکستان کو ان الفاظ میں واضح فرمائے‬
‫جداگانہ مملکت کی وجہ کیا تھی تقسیمیں ہند کی ضرورت کیوں محسوس ہیں اس کی وجہ‬
‫“ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نا انگریزوں کی چلیے تو بنیا اسالم کا بنیادی مطالبہ ہے‬
‫قائد اعظم کے ارشادات‬
‫قائد اعظم کے ارشادات‬
‫وفات‬
‫جناح ‪ 9‬ستمبر کو نمونیہ میں مبتال ہوئے تو معالجوں نے انہیں کراچی جانے کا مشورہ دیا۔‬
‫چنانچہ ‪ 11‬ستمبر کو وہ کراچی روانہ ہوئے۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہی بخش کے‬
‫مطابق ان کی حالت تسلی بخش نہ تھی۔‬
‫انہیں ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال منتقل کرنا تھا لیکن وہ راستے میں خراب ہو گئ۔ جناح‬
‫کی حالت تشویشناک تھی اس لئے انہیں دوسری گاڑی میں نہیں بھیجا جا سکتا تھا‬
‫کیونکہ وہ سیدھا بیٹھنے میں بہت دقت محسوس کر رہے تھے‬
‫چنانچہ ‪ 11‬ستمبر ‪ 1948‬کو ‪ ،‬پاکستان بننے کے ایک سال بعد جناح اس دنیائے فانی سے‬
‫رخصت ہو گئے‬
‫نظریہ پاکستان اور عالمہ محمد اقبال‬
‫عالمہ محمد اقبال کا تعارف‪:‬‬
‫عالمہ محمد اقبال نو نومبر ‪ 1877‬کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‬
‫عالمہ محمد اقبال شاعر استاد اور عظیم فالسفر تھے‬
‫انہوں نے مفکر کے طور پر پہچان اور شہرت حاصل کی تھی‬
‫لیکن مشترکہ ہندو مسلمان کے مفادات اور حق کے تحفظ کے لیے سیاست کے‬
‫میدان میں انا پڑا اس وقت قائد اعظم کو بھی ایک قابل اعتماد ساتھی کی بھی‬
‫ضرورت تھی‬
‫عالمہ محمد اقبال کا نظریہ‬
‫عالمہ اقبال کا نظریہ یہ تھا جس میں ایک خود مختار ٹھیک ہے ‪.‬‬
‫انسانیت کی بہتری اور عدل و انصاف کی بنیاد پر مسکراتا ترقی کا تصور تھا ان کا مقصد تھا کہ‬
‫مسلمانوں کو ایک ازاد اور مستقل ریاست میں جمع کرنے کا سورج اجالے کی طرف لے‬
‫جانے کا تھا‪.‬‬
‫انہوں نے انسان کی ازادی انسانیت کے اتحاد اور عدل و انصاف کو اہم اصول سمجھا‬
‫اس نظریے میں انہوں نے اسالمی تہذیب کی اثاثیت اور انسانیت کی بہتری کے لیے تجربات‬
‫کو شامل کیا‪.‬‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں پاکستان کی صورتحال کو سمجھنے اور‬
‫اس سے عمل میں النے کی تھی ان کا مقصد تھا ایک مستقل اور ازاد ریاست کا تصور کرنا‬
‫جہاں مسلمان اپنے مذہب اور تمدن کے مطابق زندگی گزار سکیں اس مقصد کو حاصل‬
‫کرنے کے لیے اقبال نے تعلیمی سیاسی اور اجتماعی طاقت کو جگا دیے اور مسلمانوں‬
‫کو ایک ساتھی اور انسانیت کی بہتری کے لیے محنت کرنا طلب کیا‬
‫انڈیا مسلم لیگ‪:‬‬
‫عالمہ اقبال نے ال انڈیا مسلم لیگ جیسے طاقتور سیاسی ایجنڈے کو توانائی دی جن کی‬
‫مدد سے مسلمانوں نے اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ضرورت کا اظہار کی ان کی‬
‫کوششیں نظریہ پاکستان کو حقیقت بنانے کی راہ میں اہم تھی‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫الگ ریاست کا تصور‪:‬‬
‫عالمہ محمد اقبال بر صغیر کے ان مسلم رہنماؤں میں سے ایک ہیں‬
‫جنہوں نے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست کا تصور دیا اور اپنی‬
‫شاعری کے ذریعے بیدار کیا پہلے پہل اپ بھی ہندو مسلم اتحاد‬
‫کے حامیوں میں سے تھے لیکن ہندوؤں کی تنگ نظری نے جلد ہی‬
‫عالمہ اقبال کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ الگ وطن‬
‫کا مطالبہ کریں‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫خطبہ الہ اباد‪:‬‬
‫اپ نے خطبہ الہ اباد ‪ 1930‬کے ذریعے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کا مطالبہ کیا‬
‫تھا کہ مسلمان اس میں رہ کر اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزار‬
‫سکیں ‪.‬‬
‫اپ نے فرمایا مجھے ایسا نظر اتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے‬
‫مسلمان کو کو باالخر ایک اسالمی ریاست قائم کرنا پڑے گی اگر ہم چاہتے ہیں‬
‫کہ اس ملک میں اسالم با حیثیت تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری‬
‫ہے کہ وہ ایک مخصوص عالقے میں میں صرف ہندوستان میں اسالم کی فالح و‬
‫بروز کے خیال سے ایک منظم اسالمی ریاست کے کام کا مطالبہ کر رہا ہوں‪.‬‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫واحد قوم کا تصور مسترد کرنا‪:‬‬
‫عالمہ اقبال نے نظیرہ پاکستان کو اجاگر کرتے ہوئے برصغیر میں باہر قوم کے تصور کو‬
‫مسترد کرتے ہوئے مسلم قوم کی جداگانہ حیثیت پر زور دیا اور اسالم کو ایک‬
‫مکمل نظام مانتے ہوئے اپ نے فرمایا‬
‫انڈیا ایک برصغیر ہے ملک نہیں یا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور‬
‫مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں‬
‫‪.‬مسلم قوم اپنی علیحدہ پہچان رکھتی ہے تمام مذہب مہذب قوموں کا فرض ہے‬
‫مسلمانوں کے مذہبی اصولوں اور سماجی اقدار کا احترام کریں‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫مسلم حکومت کا قیام‪:‬‬
‫عالمہ اقبال نے مسلم حکومت کے قیام کے لیے فرمایا‪:‬‬
‫"چونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ہے اس لیے ہندوستان کے‬
‫جس صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پر مسلمانوں کو حکومت قائم‬
‫کرنے کا حق ہونا چاہیے اور جہاں پر ہندوؤں کی اکثریت ہے وہاں پر ہندوؤں کو‬
‫حکومت کرنے کاحق ہونا چاہیے‪.‬‬
‫عالمہ اقبال کا دعوی‪:‬‬
‫عالمہ اقبال نے نظریہ پاکستان کے حوالے سے دعوی کیا کہ ہندو اور مسلمان ایک مملکت‬
‫میں اکٹھے نہیں رہ سکتے اور مسلمان جلد یا بدیر اپنی جداگانہ مملکت بنانے میں‬
‫کامیاب ہو جائیں گے‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫مسلمان اور اقوام عالم میں فرق‬
‫‪ 1910‬میں علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫"اور دنیا کی دوسری اقوام میں نمایاں فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسالمی تصور دوسری قوم کے‬
‫تصور سے مختلف ہے ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک وطن ہے نہ اس طرح کی‬
‫زبان بلکہ ہم جناب رسالت مآب صلی ہللا علیہ وسلم کے قائم کردہ برادری میں اس لیے‬
‫شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے اعتقادات کا سرچشمہ ایک ہے اور جو‬
‫تاریخی روایت ہم سب کو ورثہ میں ملی ہیں وہ بھی ہم سب کے لیے یکساں ہیں"۔‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫مسلم ملت کی اساس‬
‫عالمہ اقبال نے فرمایا کہ مسلمان اسالم کی وجہ سے ایک ملت ہیں اور ان کی قوت کا‬
‫دارومدار بھی اسالم ہے انہوں نے مسلم ملت کی اساس کے حوالے سے حقیقی تصور‬
‫اپنے اشعار میں پیش کیا۔‬
‫~ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر‬
‫خاص ہےترکیب میں قوم رسول ہاشمی‬
‫ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار‬
‫قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری‬
‫عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے‬
‫کوششیں‬
‫اپ نے مسلمانوں کو مذہب اسالم کے ہر پہلو کو اپنانے اور رنگ و نسل کے بتوں کو توڑنے کا‬
‫حکم دیا‬
‫~ بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا‬
‫نہ تورانی رہے نہ افغانی نہ ایرانی‬
‫عالمہ اقبال ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک ملت تصور کرتے تھے اس لیے‬
‫انہوں نے نیل کے ساحل سے کاشغر تک کے مسلمانوں کو حرم کے پاسبانی کہ لئے‬
‫ایک ہونے کا پیغام دیا‪:‬‬
‫~ ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‬
‫نیل کےساحل سے لے کر تابخا ک کاشغر‬
‫وفات‬
‫عالمہ محمد اقبال ‪ 21‬اپریل ‪ 1938‬کو دار فانی سے رخصت ہو گئے‬
Download