اسالمی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد . Presented by Laiba Ghaffar Sobia Mushtaq Zurwah Mateen Humaima Tariq Presented to Miss Arfa Arshad فہرست مضامین *نظریہ پاکستان *نظریہ پاکستان کی اساس *قائد اعظم اور نظریہ پاکستان *عالمہ اقبال اور نظریہ پاکستان نظریہ پاکستان تاریخ ہر کام کا اغاز ایک خیال ایک تصور سے ہوتا ہے اس خیال کو اس کام کا نظریہ کہتی ہیں اسی طرح پاکستان کا ایک نظریہ ہے جو کہ برصغیر کے مسلمانوں کے ذہن میں پاکستان کے حصول کے لیے پیدا ہوا جو باالخر تشکیل پاکستان کا باعث بنا دوسرے الفاظ میں ہم نظریے پاکستان کو وہ بنیاد کہہ سکتے ہیں جس پر پاکستان کی عمارت استوار ہو یہ نظریہ راتوں رات کسی کے ذہن میں نہیں ایا بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخی پس منظر ہےاس میں ماضی قریب میں انگریز دور حکومت کے دوران ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ حتک انگیز رویہ تھا جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان دانشور یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ انگریز سے ازادی کے بعد بھی مسلمان ایک بدتر غالمی میں جکڑے جائیں گے اور وہ بھی ہندوؤں کی غالمی لہذا اس خطرے کے پیش نظر دور اندیش مسلمانوں نے ایک الگ وطن کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اگر اس تاریخ کو ذرا ماضی کی گہرائیوں تک لے جائیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہندوستان کبھی ایک متحدہ ملک نہیں رہا بلکہ یہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا اور ہر ریاست کے اپنے اپنے مہاراجہ تھے حدود کے اندر مقید ہونے کے باوجود برصغیر کے اندر بسنے والے لوگ ایک قوم کی حیثیت سے نہیں رہ رہے تھے مثال جرمن کے لوگ جرمن انگلستان کے لوگ انگریز وغیرہ بلکہ یہ مختلف قوموں کا مربع تھا جس میں ہر قوم بالخصوص مسلمانوں اور ہندوؤں کا اپنا جداگانہ تشخص رسم و رواج اور مذاہب تھے انوں نے تقریبا ایک ہزار سال ہندوستان پر حکومت کی اور اپنے چھا جانے والے دین اسالم اور اخالق سے الکھوں ہندوؤں کو مسلمان بھی کیا حتی کہ مسلم کلچر ہندوستان کا جز بن گیا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا یہ دعوی ہے کہ وہ ہندو کلچر میں خلط ملط نہیں ہونے والے بلکہ ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں تقسیم بنگال کی مخالفت انگریزوں کا پٹھو پن کر حکومتی عہدوں کے حصول انڈین کانگرس نامی پہلی سیاسی تنظیم انگریز تسلط کی راہ ہموار کرنا چند بڑی بڑی وجوہات تھیں جن کی بنا پر نظریہ پاکستان ذہنوں میں ابھرنا ایک بالکل فطری عمل تھا جس سے کوئی نہیں روک سکتا تھا قائد اعظم نے ہندوؤں کا رویہ دیکھا تو وہ بھی اس بات کے قائل ہو گئے کہ برصغیر کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے سب کے سب ایک ہی قوم قوم کے افراد نہیں میں اتا ہے علی مرحوم نے لندن سے اور اسی بات کو قائد اعظم نے الہور میں مسلم لیگ کے ساالنہ اجالس میں قرارداد کی صورت میں منظور کروایا 1940مارچ 23 جسے قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا اس قرارداد نے کانگرس کے صفوں میں بے حد زیادہ بے چینی پیدا کر دی لیکن مسلم لیگ کا موقف بالکل واضح ہو گیا کہ برصغیر کے مسائل کا حل سوائے اس تسکین کے اور کچھ نہیں ہیں کیا ہم پاکستان کے تصور اور اس کے امکان مسلمانوں نے ایک نیا ولولہ اور تازہ جوش پیدا کر دیا اور ان کے بے حد نمایاں اکثریت قائد اعظم کی اواز پر لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئی اور باالخر مسلمانوں کی ال تعداد قربانیوں کے بعد پاکستان معجزے وجود میں اگیا نظریہ پاکستان لغوی معنی : ضابطہ یا پروگرام اصطالحی معنی نظریے سے مراد ایسا ضابطہ یا پروگرام جس کی بنیاد فلسفہ تفکر پر رکھی گئی ہو اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں مثال سیاسی معاشرتی اور تہذیبی مسائل کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بنایا گیاہو ورلڈ انسائیکلوپیڈیا کی تعریف کی رو سے نظریہ سیاسی اور تمدنی اصولوں کا مجموعہ ہے جس پر کسی قوم یا تہذیب کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں ڈاکٹر چارج براز کے الفاظ میں عام زندگی کا ضابطہ یا کوئی پروگرام جس کی بنیاد فکر و فلسفہ پر استوار ہو کیا کہالتا ہے نظریے کے ماخذ -1مشترکہ مذہبمذہب محض چند عبادات کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ پوری معاشرتی زندگی پر گہرے اثرات رکھتا ہے ہر مذہب نے سماجی تعلقات کو مخصوص نظریات کی روشنی میں استوار کیا ہے -2مشترکہ نسل مشترکہ نسل سے مشترک نظریات جنم-ایک ہی نسل کے لوگوں میں ہمدردی اور اخوت کے جذبات کا پروان چڑھنا عین فطری عمل ہے ہم نسلی ایک مضبوط مندھن ہے جو مشترک نظریات کے باعث انسانوں کو خونی رشتوں میں منسلک کیے ہوئے ہے -3مشترکہ زبان اور رہائش زبان ہی کے ذریعے لوگ اپنے جذبات و احساسات اور خیاالت دوسروں تک پہنچاتے ہیں جس سے نئے نظریات تشکیل پاتے ہیں لوگوں کے طور طریقوں اور نظریات میں یکسانیت کافی حد تک مشترکہ رہائش کا مرہون منت ہے -4مشترکہ سیاسی مقاصد دور حاضر کی بیشتر قومویں اپنے مشترکہ سیاسی مقاصد اور سیاسی نظریات کی بدولت اپنی قومی زندگی کی بقا کے لیے ازادی حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں تاکہ وہ مضبوط قوم کاروپ دھار سکیں -5مشترکہ رسم و رواج ہردور میں نظریات کی تشکیل میں مشترکہ رسم و رواج کا بڑا عمل دخل رہا ہے مشترکہ رسم و رواج کی وجہ سے لوگوں میں ثقافتی اور فکری اعتبار سے نظریاتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے نظریے کی اہمیت انسان ایک مقصد کے تحت دنیا میں ایا ہے یہ مقصد زندگی کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی قوموں کے وجود کا پتہ ان کے نظریہ سے ہوتا ہے نظریات قوموں میں مقصد کا شعور پیدا کرتے ہیں اور نظریات سے ہی قوم میں کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہوتی ہیں کسی سیاسی معاشی معاشرتی یا سکافتی تحریک کو بنیاد فراہم کرتا ہے نظریہ انسانی زندگی کا محور اور اس کی قوت محرکہ کا دوسرا نام ہے نظریہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نظم و ضبط دیتا ہے یا انسان کے ایک دوسرے کے ساتھ حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے یا ایک روپ کی مانند ہے جو کہ نظر نہیں اتا لیکن اقوام اسی کی بدولت زندہ اور متحرک نظر آتی ہیں پر کوئی قوم اپنے نظریے کو نظر انداز کر دے تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور کوئی دوسرا نظریہ اسے اپنے اندر ضم کرنے کے لیے کوشاں ہو جاتا ہے نظریہ پاکستان کی تعریف نظریہ پاکستان قران و سنت کے اصولوں پر مبنی معاشرہ کی تخلیق کا نام ہے نظریہ پاکستان اسالم کے اصولوں پر عمل کرنے اور ایک تجربہ کا کے حصول کے لیے سوچ کا نام ہے نظریہ پاکستان مسلمانوں کی سیاسی معاشرتی ثقافتی اور معاشی قدروں کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا نام ہے ملی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان میں اسالم کی حکمرانی اور اتحاد بین المسلمین کی عملی کوشش کا نام نظریہ پاکستان ہے نظریہ پاکستان ایک ایسی ریاست کے قیام کا نام ہے جہاں عوامی فالح و بہبود کا خیال رکھا جائے نظریہ پاکستان مفکرین کی نظر میں ڈاکٹر اسلم سید: پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید کے مطابق: نظریہ پاکستان سے مراد انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسالم کے مطابق ڈھالنا “ ”ہے۔ ڈاکٹر سید عبدہللا ڈاکٹر سید عبدہللا کے مطابق: نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ سے ماخوذ ہے یعنی ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں ہیں مسلمانوں کی تہذیب معاشرت اور اخالقیات منفرد ہیں اور مسلمانوں کی قومیت اسالم ہے نظریہ پاکستان کا مفہوم پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد ایک فلسفہ حیات پر استوار کی گئی یہ فلسفہ دین اسالم ہے پاکستان کی تمام تر اساس دین اسالم ہے اور اس کا سرزمین پر نفاس صدیوں تک رہا ہے یہی وہ الحیہ عمل ہے اور جذبہ ہے جو تحریک پاکستان کا موجب بنا نظریہ پاکستان اور اسالمی نظریہ حیات کو ہم معنی قرار دیا جاتا ہے بال شبہ اسالمی نظریہ حیات نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے نظریہ پاکستان کی اساس پاکستان کے نظریے کی اساس دین اسالم ہے . اسالم کا معاشی ،معاشرتی ،سیاسی اور مذہبی نظام رواداری انصاف ،بھائی چارے اور فالحی انسانیت کے اصولوں پر استوار ہے اس لیے اسالمی نظام حیات زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور مسلمانوں کی تمام شعبہ ہائے زندگی کے شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ یہی پاکستان کی بنیاد قرار پایا برصغیر پاک و ہند کے مسلمان انگریز دور میں غالمی کی زندگی بسر کر رہے تھے وہ ازادی اور خود مختاری چاہتے تھے لیکن انہیں اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی نظر نہیں آرہی تھی لہذا بڑے غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ برصغیر کے مسلم اکثریتی عالقوں پر مشتمل ایک مسلم مملکت قائم کی جائے۔لہذا یہی سوچ مسلمانوں کا نصب العین بن گئی اور منزل مقصود کو پانے کے لئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے تحریک شروع کی۔ علیحدہ اسالمی مملکت کا قیام ایک مقصد بنا اور یہی مقصد نظریہ پاکستان کی تخلیق کا باعث بنا. نظریہ پاکستان کی اساس پاکستان اسالمی نظریہ حیات پر مبنی ہے. مندرجہ ذیل اسالمی اقدار نظریہ پاکستان کی اساس ہیں۔ *عقائد و عبادات *جمہوری روایات کو فروغ * مساوات اور معاشرتی انصاف *شہریوں کے حقوق و فرائض *اخوت و بھائی چارہ عقائد و عبادات پاکستان کے مطالبے کے پس منظر میں یہ ایک سوچ کار فرما تھی کہ مسلمان اپنی زندگیاں اپنے عقائد کے مطابق گزار سکیں انہیں عبادت کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو ۔ مسلمانوں کے عقائد درج ذیل ہیں *توحید *رسالت *یوم اخرت پر ایمان *فرشتوں پرایمان *الہامی کتابوں پر ایمان عقائد و عبادات عبادات میں نماز ،روزہ زکوۃ ،حج شامل ہیں. جن کی ادائیگی ان پر فرض ہے ہللا تعالی کی عظیم ہستی کے لیے اپنی جان اور مال کو قربان کرنا جہاد کہالتا ہے۔ لہذا جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے عبادات کا مقصد اپنے اپ کو ہللا کی منشاء کا پابند بنانا ہے اور کسی دوسرے کا محتاج بننے سے روکنا ہے۔ یہ کردار ایک مثالی اسالمی ریاست اور معاشرے کی تشکیل میں اہمیت کا حامل ہے مساوات اور معاشرتی انصاف اسالم ایک پرامن دین ہے۔ایک منصفانہ معاشرےکا قیام عمل میں التے ہوئے مسلمانان بر معاشرے میں ذات پات رنگ نسل اور زبان و ثقافت کی تمیز روا رکھے بغیر ان تمام مسلمانوں کو برابر درجہ دیے جانے کا عزم کیا گیا ہے ریاست میں سب افراد کے لیے مساوی قانون اور یکساں عدالت عدلیہ اور قانون کی حکمرانی عوام میں مساوات اور انصاف کے قیام کی بنیادی شرائط ہیں ۔اسالمی ریاست نے انصاف کی سربلندی پر زور دیا۔ صغیر نے عدل اور سماجی مساوات پر زور دیا حضرت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم نے اس حقیقت کو خطبہ حجتہ الوداع میں یوں بیان فرمایا ہے: " اے لوگو تم سب کا پروردگار ایک ہے اور تم سب آدم کی اوالد ہو پس کسی عربی کو عجمی پر ,عجمی کو عربی پر ,کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے" مساوات اور معاشرتی انصاف اسالم عورتوں کو بلند مقام دیتا ہے۔ عورت کی ماں ،بیٹی ،بیوی ،بہن غرض ہر کردار میں عظمت بیان کی گئی ہے۔ قران میں عورتوں کے حقوق کا کام مردوں سے پہلے ذکر موجود ہے۔ اسالم نے انہیں وراثت میں حصہ دار قرار دیا ہے اسالمی معاشرہ بوڑھوں ،ناداروں ،یتیموں اور بیواؤں کی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اسالمی حکومت میں دولت کو چند ہاتھوں میں روکا نہیں جاتا بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم کی جاتی ہے ۔جس سے معاشرتی انصاف کو فروغ ملتا ہے ۔پاکستان بنانے کا فیصلہ ان تمام اقدار کی تکمیل کے لیے کیا گیا تاکہ اس عظیم مملکت خداداد میں اخوت ،بھائی چارے ،برداشت اور باہمی تعاون کے جذبوں کو فروغ دیا جا سکے۔ جمہوریت کا فروغ اسالمی ریاست اور معاشرے کی بنیاد مشاورت ہے ۔ اسالمی معاشرے میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور عوام کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور وہ لوگ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ قانون سب کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مساوات قائم کی جاتی ہے ہر کام عوام کی بھالئی کے لیے کیا جاتا ہے۔ امیر المومنین اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا پابند ہوتا ہے وہ ہمیشہ ہللا کے احکام کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے اور اقتدار کو اس عظیم ہستی کی منشاء کے مطابق چالتا ہے پاکستان کو قیام میں عمل النے کا مقصد بھی درج باال جمہوری روایات اور تصورات کو عملی شکل دینا تھا تاکہ ملک میں اسالمی اقدار کو اپنایا جائےاور مغربی جمہوریت کے تصور کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ کیونکہ یہ اسالمی جمہوریت کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے جمہوریت کا فروغ جمہوریت کے بارے میں قائد اعظم نے 14فروری 1948کو سبی کے مقام پر اپنے خطاب قیام پاکستان کے غرض یوں بیان کی: "آؤ ہم اپنے جمہوری نظام کو اسالمی رنگ میں اسالمی اصولوں کے مطابق بنیاد فراہم کریں ہللا ذوالجالل نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اپنی ریاستی امور کو باہم صالح مشورے سے طے کریں"۔ شہریوں کے حقوق و فرائض اسالمی ریاست میں عوام کے حقوق و فرائض کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک فرد کا حق دوسرے کا فرض بن جاتا ہے حقوق و فرائض کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ یہ ایک دوسرے کے لیے الزم و ملزوم ہوتے ہیں ۔ایک شخص ہمیشہ فرائض ادا کر کے حقوق حاصل کرنے کے قابل بنتا ہے اسالمی ریاست میں کسی فرق و تمیز کے بغیر دنیاوی حقوق فراہم کیے جاتے ہیں۔ حقوق ہمیشہ وہ سہولتیں ہوتی ہیں جو شہریوں کو ریاست فرائض کی ادائیگی کے بعد دیتی ہے اسالم نے بھی حقوق کے حوالے سے کسی امیر ،غریب ،کالے ،گورے اور عجمی ،عربی کا فرق نہ کیا۔ پاکستان کے قیام میں ایک سوچ یہ بھی تھی کہ عوام کو یکساں حقوق اور اقلیتوں کو تحفظ ملے کیونکہ اسالم یہ اجازت کسی صورت نہیں دیتا کہ اسالمی معاشرے میں زندگیاں بسر کرنے والے کے جان مال اور مذہبی روایات کا تحفظ نہ کیا جائے ۔لہذا قیام پاکستان اسالمی معاشرے کے قیام کی طرف ایک بہت بڑا قدم تھا تاکہ مسلمان اپنی زندگیاں مذہبی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ اخوت و بھائی چارہ دین اسالم امن کا دائی ہے. اور مسلمانوں کے مابین اخوت اور بھائی چارے کے جذبوں کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے۔ بھائی چارہ سے ہمیشہ محبت ،خلوص ،احسان ،شفقت اور ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہیں اسالمی ریاست پاکستان کی تشکیل بھی اسی جذبے کے ساتھ ہوئی کہ ملک میں اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے قائد اعظم کا تعارف بابائے قوم محمد علی جناح ،ایک خوشحال تاجر پونجا جناح کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ان کی تاریخ پیدائش 25دسمبر 1876بتائی جاتی ہے۔ابتدائی تعلیم گھر پہ حاصل کرنے کے بعد آپ ” سندھ مدرستہ االسالم کراچی” میں تعلیم کے لئے بھیجے گئے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے والد کا رحجان انہیں تجارت کے میدان میں النے کی طرف تھا جبکہ جناح خود بیرسٹر بننا چاہتے تھے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے آپ انگلستان میں لنکنز ان میں چلے گئے اپنی انتھک محنت سے آپ نے 1895میں ” بار ایٹ الء” کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے 19سال کی کم عمر میں ہیاس منزل تک رسائی حاصل کر لی۔ قائد اعظم کی فیملی محمد علی جناح کی تین بہنیں ائی تھے اور تین بھجن میں مادر ملت فاطمہ جناح سب سے چھوٹی تھیں۔ قائد کی زوجہ رتن بائی سے ان کی ایک بیٹی دینا جناح تھیں ازادی کے لیے قائد اعظم کی کوشش جناح ایک سیاستدان ،بیرسٹر اور پاکستان کے بانی تھے۔آپ کی پرجوش قیادت اور دوراندیشی کی بنا پر مسلمان اپنے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قائد اعظم ؒ کی اس پچاس سال پر مبنی سیاسی زندگی کی جدوجہد اور کوشش کا مرکز اور محوریہ نظریہ تھا کہ بر صغیر جنوبی ایشی کے مسلمانوں کو سیاسی ،معاشی، معاشرتی اور مذہبی حقوق سے بہرہ ور کر کے ان کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ باوقار شہری بنایا جائے پاکستان کی ازادی میں قائد اعظم کا کردار ائد اعظم 1930ء میں الگ مسلم مملکت کے قیام کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940ء تک قائد اعظم نے حکمت عملی سے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر علیحدہ وطن کی جدوجہد کے لئے تیار کر لیا۔جس کے نتیجے میں 23مارچ 1940کو الہور میں “منٹو پارک” میں برصغیر کے مسلمانوں کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں ہندوستان بھر سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت کی۔اس موقع پر ایک قرارداد منظور ہوئی جس کے مطابق مسلمانان ہند نہ صرف یہ کہ انگریزوں سے آزادی چاہتے تھے بلکہ ہندوؤں سے بھی الگ ہونے کے خواہشمند تھے۔ قرارداد پاکستان میں پیش کئے گئے نکات میں سے اہم ترین نکات میں مسلمانوں کے لئے آزاد مسلم حکومت کا قیام ،برصغیر کی تقسیم اور ہندو اکثریتی عالقوں میں مسلمانوں کا تحفظ شامل ہیں پاکستان ایک اسالمی ریاست قائدا اعظم اور قرارداد مقاصد کی روشنی میں قائد اعظم تحریک پاکستان کے قائد اور پاکستان کو جدید اسالمی ریاست بنانے کے بڑے حامی تھے اپ نے نظریہ پاکستان کی وضاحت ان الفاظ میں کی پاکستان تو اسی روز وجود میں اگیا تھا جب ہندوستان پہ میں پہال ہندو مسلمان ہوا تھا اپ پاکستان کی بانی جماعت ال انڈیا مسلم لیگ کے سربرا بنے اور خود کو حصول پاکستان کے لیے وقف کر دیا اپ نے مارچ 1940منٹو پارک الہور میں مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی تشریح کی اور فرمایا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستیاں جن کی کوئی قدر مشترک نہیں لہذا مسلمانوں کے لیے ہللا مملکت کی ضرورت ہے اجالس کے اختتام پر قائد قرارداد الہور منظور کروائے گی جس میں الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا پاکستان ایک اسالمی ریاست قائدا اعظم اور قرارداد مقاصد کی روشنی میں ہمارا رہنما اسالم ہے اور “سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا قائدا اعظم نے مارچ 1944میں طلبہ قوم قائد اعظم نے چند دن بعد فرمایا اسے پاکستانی “یہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے مسلمانوں کے ازادی اور اسالم کی شان و شوکت کا سامنا ہے قائد اعظم نے مسلم لیگ کے وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک “ 1943کا ساالنہ اجالس منعقد کراچی میں فرمائیں ہونے سے تمام مسلمان جد واحد کی طرح وہ کون سی چٹان ہے جس پر ملت کی عمارت استوار ہے وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ ہے وہ رشتہ وہ چٹان اور وہ قائد اعظم نے 1945میں پشاور میں طلبہ سے “لنگر ہللا تعالی کی کتاب قران مجید ہے ہماری قوم ازادی حاصل کرنے کی اہل ہےجس میں اسالم کے ”خطاب کرتے ہوئے فرمایا ظم نے 21مارچ ”اصولوں پر عمل درامد کرنا ممکن ہوگا نظریہ اسالم کی حفاظت ہو سکے گی اپ سندھی “ 1948میں ڈھاکہ میں عوام سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ بلوچی پنجابی پٹھان اور بنگالی بن کر بات نہ کریں کہنے میں کیا فائدہ کہ ہم پنجابی سندھی قائد اعظم نے علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے نظریہ ”یا پٹانے ہم تو بس مسلمان ہیں پاکستان کے مطالبے کا محرک اور مسلمانوں کے لیے ”پاکستان کو ان الفاظ میں واضح فرمائے جداگانہ مملکت کی وجہ کیا تھی تقسیمیں ہند کی ضرورت کیوں محسوس ہیں اس کی وجہ “ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نا انگریزوں کی چلیے تو بنیا اسالم کا بنیادی مطالبہ ہے قائد اعظم کے ارشادات قائد اعظم کے ارشادات وفات جناح 9ستمبر کو نمونیہ میں مبتال ہوئے تو معالجوں نے انہیں کراچی جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ 11ستمبر کو وہ کراچی روانہ ہوئے۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہی بخش کے مطابق ان کی حالت تسلی بخش نہ تھی۔ انہیں ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال منتقل کرنا تھا لیکن وہ راستے میں خراب ہو گئ۔ جناح کی حالت تشویشناک تھی اس لئے انہیں دوسری گاڑی میں نہیں بھیجا جا سکتا تھا کیونکہ وہ سیدھا بیٹھنے میں بہت دقت محسوس کر رہے تھے چنانچہ 11ستمبر 1948کو ،پاکستان بننے کے ایک سال بعد جناح اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے نظریہ پاکستان اور عالمہ محمد اقبال عالمہ محمد اقبال کا تعارف: عالمہ محمد اقبال نو نومبر 1877کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے عالمہ محمد اقبال شاعر استاد اور عظیم فالسفر تھے انہوں نے مفکر کے طور پر پہچان اور شہرت حاصل کی تھی لیکن مشترکہ ہندو مسلمان کے مفادات اور حق کے تحفظ کے لیے سیاست کے میدان میں انا پڑا اس وقت قائد اعظم کو بھی ایک قابل اعتماد ساتھی کی بھی ضرورت تھی عالمہ محمد اقبال کا نظریہ عالمہ اقبال کا نظریہ یہ تھا جس میں ایک خود مختار ٹھیک ہے . انسانیت کی بہتری اور عدل و انصاف کی بنیاد پر مسکراتا ترقی کا تصور تھا ان کا مقصد تھا کہ مسلمانوں کو ایک ازاد اور مستقل ریاست میں جمع کرنے کا سورج اجالے کی طرف لے جانے کا تھا. انہوں نے انسان کی ازادی انسانیت کے اتحاد اور عدل و انصاف کو اہم اصول سمجھا اس نظریے میں انہوں نے اسالمی تہذیب کی اثاثیت اور انسانیت کی بہتری کے لیے تجربات کو شامل کیا. عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں پاکستان کی صورتحال کو سمجھنے اور اس سے عمل میں النے کی تھی ان کا مقصد تھا ایک مستقل اور ازاد ریاست کا تصور کرنا جہاں مسلمان اپنے مذہب اور تمدن کے مطابق زندگی گزار سکیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اقبال نے تعلیمی سیاسی اور اجتماعی طاقت کو جگا دیے اور مسلمانوں کو ایک ساتھی اور انسانیت کی بہتری کے لیے محنت کرنا طلب کیا انڈیا مسلم لیگ: عالمہ اقبال نے ال انڈیا مسلم لیگ جیسے طاقتور سیاسی ایجنڈے کو توانائی دی جن کی مدد سے مسلمانوں نے اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ضرورت کا اظہار کی ان کی کوششیں نظریہ پاکستان کو حقیقت بنانے کی راہ میں اہم تھی عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں الگ ریاست کا تصور: عالمہ محمد اقبال بر صغیر کے ان مسلم رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست کا تصور دیا اور اپنی شاعری کے ذریعے بیدار کیا پہلے پہل اپ بھی ہندو مسلم اتحاد کے حامیوں میں سے تھے لیکن ہندوؤں کی تنگ نظری نے جلد ہی عالمہ اقبال کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ الگ وطن کا مطالبہ کریں عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں خطبہ الہ اباد: اپ نے خطبہ الہ اباد 1930کے ذریعے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کا مطالبہ کیا تھا کہ مسلمان اس میں رہ کر اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزار سکیں . اپ نے فرمایا مجھے ایسا نظر اتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمان کو کو باالخر ایک اسالمی ریاست قائم کرنا پڑے گی اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسالم با حیثیت تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص عالقے میں میں صرف ہندوستان میں اسالم کی فالح و بروز کے خیال سے ایک منظم اسالمی ریاست کے کام کا مطالبہ کر رہا ہوں. عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں واحد قوم کا تصور مسترد کرنا: عالمہ اقبال نے نظیرہ پاکستان کو اجاگر کرتے ہوئے برصغیر میں باہر قوم کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے مسلم قوم کی جداگانہ حیثیت پر زور دیا اور اسالم کو ایک مکمل نظام مانتے ہوئے اپ نے فرمایا انڈیا ایک برصغیر ہے ملک نہیں یا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں .مسلم قوم اپنی علیحدہ پہچان رکھتی ہے تمام مذہب مہذب قوموں کا فرض ہے مسلمانوں کے مذہبی اصولوں اور سماجی اقدار کا احترام کریں عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں مسلم حکومت کا قیام: عالمہ اقبال نے مسلم حکومت کے قیام کے لیے فرمایا: "چونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ہے اس لیے ہندوستان کے جس صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پر مسلمانوں کو حکومت قائم کرنے کا حق ہونا چاہیے اور جہاں پر ہندوؤں کی اکثریت ہے وہاں پر ہندوؤں کو حکومت کرنے کاحق ہونا چاہیے. عالمہ اقبال کا دعوی: عالمہ اقبال نے نظریہ پاکستان کے حوالے سے دعوی کیا کہ ہندو اور مسلمان ایک مملکت میں اکٹھے نہیں رہ سکتے اور مسلمان جلد یا بدیر اپنی جداگانہ مملکت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں مسلمان اور اقوام عالم میں فرق 1910میں علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "اور دنیا کی دوسری اقوام میں نمایاں فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسالمی تصور دوسری قوم کے تصور سے مختلف ہے ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک وطن ہے نہ اس طرح کی زبان بلکہ ہم جناب رسالت مآب صلی ہللا علیہ وسلم کے قائم کردہ برادری میں اس لیے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے اعتقادات کا سرچشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایت ہم سب کو ورثہ میں ملی ہیں وہ بھی ہم سب کے لیے یکساں ہیں"۔ عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں مسلم ملت کی اساس عالمہ اقبال نے فرمایا کہ مسلمان اسالم کی وجہ سے ایک ملت ہیں اور ان کی قوت کا دارومدار بھی اسالم ہے انہوں نے مسلم ملت کی اساس کے حوالے سے حقیقی تصور اپنے اشعار میں پیش کیا۔ ~ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہےترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری عالمہ اقبال کی نظریہ پاکستان کے لیے کوششیں اپ نے مسلمانوں کو مذہب اسالم کے ہر پہلو کو اپنانے اور رنگ و نسل کے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا ~ بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے نہ افغانی نہ ایرانی عالمہ اقبال ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک ملت تصور کرتے تھے اس لیے انہوں نے نیل کے ساحل سے کاشغر تک کے مسلمانوں کو حرم کے پاسبانی کہ لئے ایک ہونے کا پیغام دیا: ~ ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کےساحل سے لے کر تابخا ک کاشغر وفات عالمہ محمد اقبال 21اپریل 1938کو دار فانی سے رخصت ہو گئے