Uploaded by jhaldab038

31053 بنیادی انسانی حقوق، تربیت اولاد اور خدمتِ خلق

advertisement
‫اسالمیات‬
‫بنیادی انسانی حقوق‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫(‪(Basic Human Rights‬‬
‫موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی بات بڑے پیمانے پر ہورہی ہے بلکہ صحیح الفاظ میں انسانی‬
‫حقوق کی بات ایک فیشن کی صور ت اختیار کرچکی ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ در حقیقت‬
‫انسانوں نے ہی انسانوں پر بہت بڑےظلم ڈھائے ہیں اور بہت بڑی زیادتیاں کی ہیں ۔ اس لیے انسان‬
‫کے بارے میں خود انسانوں میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا رہا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کیا ہیں؟‬
‫االعلی مودودی کے بقول‪ ":‬قانون فطرت نے ایک حیوان کو دوسرے حیوان کے لیے اگر‬
‫سید ابو‬
‫ٰ‬
‫غذا بنایا ہے تو وہ صرف غذا کی حد تک ہی اس پر دست درازی کرتا ہے۔ کوئی درندہ ایسا نہیں ہے‬
‫جو غذائی ضرورت کے بغیر یا اس ضرورت کے پورا ہوجانے کے بعد بالوجہ جانوروں کو مارتا‬
‫چال جاتا ہو۔خود اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نوع حیوانی کا وہ سلوک نہیں ہے جو انسان کا اپنے افراد کے‬
‫ساتھ ہے۔جب سے انسان زمین پرآباد ہوا ہے اس وقت سے آج تک تمام حیوانات نے اتنے انسانوں کی‬
‫جانیں نہیں لی ہیں جتنی انسانوں نے دوسری جنگ عظیم میں انسانوں کی جانیں لی ہیں(کہ چھ کروڑ‬
‫لوگوں کی جانیں لے لیں)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانون کو فی الواقع دوسرے انسانوں کے بنیادی‬
‫حقوق کی کوئی تمیز نہیں ہے۔صرف ہللا ہی ہے جس نے انسان کی رہنمائی اس باب میں کی ہے اور‬
‫اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانی حقوق کی واقفیت بہم پہنچائی ہے۔در حقیقت انسانی حقوق متعین‬
‫کرنے واال انسان کا خالق ہی ہو سکتا ہے چنانچہ اس خالق نے انسان کے حقوق نہایت تفصیل سے‬
‫‪1‬‬
‫بتائے ہیں۔‬
‫بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے مغربی دنیا میں گیاروہیں صدی ہجری سے تحریک شروع‬
‫ہوئی۔ وقتاَََ فوقتاَََ مغربی حکمران اپنے باشندوں کو حقوق دیتے رہے۔ باآلخر ‪ 20‬ویں صدی کے‬
‫درمیان میں اقوام متحدہ کے ادارے نے عالمی منشور کے طور پر کچھ حقوق منظور کیے اور میمبر‬
‫ممالک کو ان پر پابند رہنے کی تاکید کی۔ جب کہ پیغمبر اسالم حضرت محمدﷺ نے تقریبا ً‬
‫ساڑھےچودہ سو سال پہلے ساتویں صدی کی شروعات میں حجۃ الوداع کے خطبہ میں انسانی بنیادی‬
‫حقوق کا عالمی منشور پیش کیا اور مسلمانوں کو اس پر پابند رہنے کی تلقین کی۔اقوام متحدہ کا انسانی‬
‫حقوق کا چارٹر دراصل خطبۂ حجۃ الوداع کے منشور کی جدید اور اضافہ شدہ صورت ہے۔‬
‫اسالم نے ہر انسان کو بال تفریق وطن ‪ ،‬مذہب ‪ ،‬رنگ و نسل کے جو حقوق دیے ہیں ان میں‬
‫سے کچھ یہ ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔ جان کا تحفظ‬
‫اسالم کی نظر میں ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کی جان محفوظ رہے‪ ،‬چاہے وہ کسی بھی مذہب‬
‫‪ ،‬رنگ ‪ ،‬نسل ‪،‬زبان یا وطن سے تعلق رکھتا ہو۔ کسی انسان کی جان ناحق طریقے سے لینے کو اسالم‬
‫پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫‪2‬‬
‫َ‬
‫َ‬
‫َ‬
‫َّ‬
‫َّ‬
‫ْ‬
‫َ‬
‫َ‬
‫اس َجمیعًا‬
‫َم ْن قَت َ َل نَ ْف ً‬
‫سا بغَیْر نَ ْف ٍس أ َ ْو فَ َ‬
‫اس َجمیعًا َو َمن أحْ یَاھَا فكأن َما أحْ یَا الن َ‬
‫سا ٍد في ْاْل َ ْرض فَ َكأَنَّ َما قَت َ َل النَّ َ‬
‫"جس شخص نےکسی کو (ناحق) قتل کیا (یعنی) بغیر اس کے کہ اس سے جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک‬
‫میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے‪ ،‬اُس نے گویا تمام انسانیت کو قتل کیا اور جس نے اس کی زندگی‬
‫بچائی تو گویا اس نے تمام انسانیت کی جان بچائی"‬
‫اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہے کہ ریاست کو کسی انسان کی جان لینے کا اختیار صرف دو صورتوں‬
‫میں ہے‪ :‬ایک یہ کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو ناحق قتل کرے تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا‬
‫جائے گا یا کوئی شخص زمین میں فساد پھیآلئے جیسے مسلح بغاوت یا لوٹ مار وغیرہ۔‬
‫ایک دوسری آیہ میں ایک مومن کے ناحق قتل کی پانچ سزائیں بتائی گئی ہیں‪:‬‬
‫‪1‬‬
‫‪2‬‬
‫اسالمی ریاست‪550:‬‬
‫المائدہ‪32:‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫ً‬
‫ٰلدا‬
‫ً فجزآئہ جھنم خ‬
‫ً متعمدا‬
‫ومن یقتل مؤمنا‬
‫ً‪3‬‬
‫ً عظیما‬
‫فیھا وغضب للا علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا‬
‫" اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا ً قتل کردے تو اس کی سزا جھنم ہے‪،‬جس میں وہ ہمیشہ رہے‬
‫گا‪،‬اور ہللا اس پر غضبناک ہوگا‪،‬اور اس پر لعنت کرے گا‪،‬اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار رکھے‬
‫گا"‬
‫‪4‬‬
‫رسول ہللا ﷺ نے شرک کے بعد قتل نفس کو بہت بڑا گناہ شمار کیا ہے اور آپ ﷺ نے مومن کی صفات‬
‫علی دمائھم واموالھم ‪ " 5‬اصل مومن تو وہ ہے جس سے‬
‫بتاتے ہوئے فرمایا‪ :‬والمؤمن من امنہ الناس ٰ‬
‫لوگوں کے خون اور مال محفوظ رہیں" اس اخالقی نصیحت کے بعد اسالم نے انسانی جان کے تحفظ‬
‫کے لیے قانون قصاص ودیت دیا تا کہ انسانیت محفوظ رہے۔‬
‫‪2‬۔ مال کا تحفظ‬
‫اسالم نے جس طرح کسی کی جان میں ناجائز دست اندازی کو حرام قرار دیا ہے‪ ،‬اسی طرح‬
‫کسی کے مال میں بھی ناجائزدست اندازی کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪:‬یَا أَیُّ َھا الَّذینَ‬
‫اض م ْن ُك ْم‪" 6‬اے ایمان والو! ایک دوسرے کا‬
‫ع ْن ت ََر ٍ‬
‫ارة ً َ‬
‫آ َمنُوا َال ت َأ ْ ُكلُوا أ َ ْم َوالَ ُك ْم بَ ْینَ ُك ْم ب ْالبَاطل إ َّال أ َ ْن ت َ ُكونَ ت َج َ‬
‫مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ‪ ،‬سوائے اس کے کہ باہمی رضامندی سے لین دین ہو"‬
‫اسالم کی نظر میں انسان کا مال بھی اتنا ہی قابل احترام ہے جتنی کہ اس کی جان قابل احترام ہے۔عرب‬
‫کے لوگ حج کے دن ‪ ،‬حج کے مہینوں اور شہر مکہ مکرمہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ چنانچہ‬
‫آپ نے سوا الکھ صحابہ کرام‬
‫عربوں کے مزاج اور محاورے کے مطابق حجۃ الوادع کے خطبے میں ؐ‬
‫رضوان ہللا علیہم اجمعین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا‪ :‬فان دمائکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام‬
‫کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شہرکم ھذا‪" 7‬تمہاری جانیں‪ ،‬تمہارے مال اور تمھاری عزتیں ایک‬
‫دوسرے کے لیے اسی طرح محترم ہیں جیسے آج کا دن تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬اال ال تظلموا ‪،‬اال ال یحل مال امری اال بطیب نفس‬
‫تمہارے لیے محترم ہے"۔ ایک موقع پر ؐ‬
‫منہ‪" 8‬خبردار! کسی پر ظلم مت کرنا‪ ،‬خبردار! کسی بھی شخص کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬من اخذ شبرا من االرض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیمۃ من‬
‫حالل نہیں ہے"۔ ایک روایت میں ؐ‬
‫سبع ارضین‪" 9‬جس شخص نے ایک بالشت کے برابر کسی کی زمین پرناجائز قبضہ کیا ‪ ،‬قیامت کے‬
‫دن سات زمینوں تک وہ اس کی گردن میں ڈالی جائے گی‪ ،‬یعنی اس کے وزن کے برابر تکلیف میں‬
‫اسے مبتال کیا جائے گا"‬
‫چوری‪،‬ڈاکہ زنی‪،‬غبن‪،‬ناپ تول میں کمی بیشی‪،‬مالوٹ‪،‬سود خوری‪،‬کام چوری‪،‬قمار بازی‪،‬حرام چیزوں‬
‫اور حرام عمل کا کاروبار اور دوسری بہت ساری چیزوں کو اسالم نے حرام قرار دیا تا کہ لوگوں کا‬
‫مال محفوظ رہے۔ پھر اسالم نے مال کے تحفظ کے لیے صرف وعظ ونصیحت کو کافی نہیں سمجھا‬
‫بلکہ اس کے لیے قانون بھی بنایا ہےچنانچہ چور کا ہاتھ کاٹنا‪،‬ڈاکو کا دایاں ہاتھ اور بایاں پیر‬
‫کاٹنا‪،‬جرمانہ وغیرہ۔‬
‫مال چونکہ خون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی کا خون نکاال جائے تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا‬
‫ہے اسی طرح اگر کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کیا جائےتو اس کا بھی عزت کے ساتھ زندہ رہنا‬
‫مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے اسالم مال کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔‬
‫‪ 3‬النساء ‪93 :‬‬
‫‪ 4‬خطیب تبریزی ‪ ،‬مشکواة المصابیح ‪17 /1‬‬
‫‪ 5‬ایضا ً ص ‪ 15‬بروایۃ ابی ہریرہ رضی ہللا عنہ‬
‫‪ 6‬النساء‪29:‬‬
‫‪ 7‬صحیح بخاری‪ ،‬کتاب الحج‪ ،‬باب الخطبہ ایام منی ‪،‬حدیث ‪1739‬‬
‫‪ 8‬مسند احمد بن حنبل ‪،‬حدیث ‪،15488‬‬
‫‪ 9‬خطیب تبریزی‪ ،‬مشکوة المصابیح‪ ،‬باب الحصب والعاریہ ‪254 /1‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫‪3‬۔ عزت کا تحفظ‬
‫اسالم کی نظر میں یہ بھی ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ اس کی عزت کا تحفظ کیا جائے۔ اسی‬
‫لیے اسالم اپنے پیروکاروں کو کسی کا مذاق اڑانے‪،‬طعنے دینے‪،‬کسی کا برا نام رکھنے‪،‬کسی میں‬
‫بالوجہ بدگمانی کرنے‪،‬کسی کے عیب تالش کرنے‪،‬اور کسی کی غیبت کرنے جیسے اعمال سے روکتا‬
‫ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی تذلیل ہوتی‬
‫عسٰٰۤ ى ا َ ْن یَّ ُك ْونُ ْوا َخی ًْرا م ْن ُھ ْم‬
‫ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪ٰٰۤ :‬یاَیُّ َھا الَّذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال یَ ْسخ َْر قَ ْو ٌم م ْن قَ ْو ٍم َ‬
‫س اال ْس ُم‬
‫سآءٍ َ‬
‫عسٰٰۤ ى ا َ ْن یَّ ُك َّن َخی ًْرا م ْن ُھ َّنۚ‪َ ١‬و َال ت َْلم ُز ٰۤ ْوا ا َ ْنفُ َ‬
‫سا ٓ ٌء م ْن ن َ‬
‫َو َال ن َ‬
‫س ُك ْم َو َال تَنَابَ ُز ْوا ب ْاالَ ْلقَابؕ‪ ١‬بئْ َ‬
‫ٓ‬
‫ٰۤ‬
‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫َّ‬
‫َّ‬
‫ّٰ‬
‫َّ‬
‫س ْو ُق بَ ْعدَ ْاال ْی َمانۚ‪َ ١‬و َم ْن ل ْم یَتُبْ فَاُول ِٕىكَ ُھ ُم الظل ُم ْونَ ‪ٰ ۰۰١١‬یاَیُّ َھا الذیْنَ ا َمنُوا اجْ ت َنب ُْوا َكثی ًْرا منَ الظن‪١ٞ‬‬
‫ْالفُ ُ‬
‫ض َّ‬
‫ضاؕ‪"10١‬اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا‬
‫الظن اثْ ٌم َّو َال ت َ َج َّ‬
‫ض ُك ْم بَ ْع ً‬
‫س ْوا َو َال یَ ْغتَبْ بَّ ْع ُ‬
‫س ُ‬
‫ا َّن بَ ْع َ‬
‫مذاق نہ اڑائے ‪ ،‬ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی کچھ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق‬
‫اڑائیں‪،‬ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں‪،‬اور نہ ایک دوسرے کو طعنے دو اور نہ ایک دوسرے کا برا‬
‫نام رکھو‪،‬ایمان کے بعد فسق کا نام رکھنا بہت بری بات ہے۔اور جو ابھی بھی باز نہ آئیں وہ ظالم‬
‫ہیں۔اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‪،‬اور کسی کے عیب‬
‫تالش نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو"ایک اور آیت میں ارشاد ہے‪َ :‬والَّذینَ یُؤْ ذُونَ ْال ُمؤْ منینَ‬
‫سبُوا فَقَد احْ ت َ َملُوا بُ ْھت َانًا َوإثْ ًما ُمبینًا‪" 11‬اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں‬
‫َو ْال ُمؤْ منَات بغَیْر َما ا ْكت َ َ‬
‫کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ‬
‫اپنے سر پر رکھا "‬
‫‪12‬‬
‫حضور اکرم ؐ نے فرمایا‪ :‬کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ۔ "ہر مسلمان کی جان ‪ ،‬مال‬
‫اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے"‬
‫‪13‬‬
‫آپ کا ارشا د ہے‪ :‬بحسب امرا من الشر ان یحقرا خاہ المسلم "کسی شخص کے‬
‫ایک روایت میں ؐ‬
‫برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کمتر سمجھے" حضرت انس رضی ہللا‬
‫عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ‪ :‬والذی نفسی بیدہ الیومن احدکم حتی یحب الخیہ مایحب‬
‫لنفسہ‪" 14‬اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص تب تک مومن‬
‫نہیں ہوسکتا‪ ،‬جب تک وہ اپنے بھائی کےلیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے"‬
‫ایک روایت میں فرمایا‪ :‬واحب للناس ماتحب لنفسک تکن مسلما ً ‪ " 15‬لوگوں کے لیے بھی وہی چیز پسند‬
‫کر جو تواپنے لیے پسند کرتا ہے تب تم پکےمسلمان بنوگے"‬
‫ا ور ظاہر بات ہے کہ کوئی انسان اپنی تو ہین پسند نہیں کرے گا‪ ،‬اس لیے اسے یہ احساس‬
‫دالیا گیا کہ دوسروں کےلیے بھی وہ وہی سوچے جو وہ اپنے لیےسوچتا ہے۔‬
‫‪4‬۔عقیدے اور مذہب کی آزادی‬
‫اسالم نے ہر شخص کو عقیدے اور مذہب کی آزادی کا حق دیا ہے۔ کسی کو اس کا مذہب یا عقیدہ‬
‫چھوڑنے یا دوسرا مذہب قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو اس کی مذہبی‬
‫الر ْشدُ منَ‬
‫عبادات و رسومات سے روکا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪َ :‬ال إ ْك َراہَ في الدین ۖ قَ ْد تَبَیَّنَ ُّ‬
‫ْالغَي‪" 16‬دین (اسالم) میں زبردستی نہیں ہے‪ ،‬ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو‬
‫‪10‬‬
‫‪11‬‬
‫‪12‬‬
‫‪13‬‬
‫‪14‬‬
‫‪15‬‬
‫‪16‬‬
‫الحجرات‪11:‬۔‪12‬‬
‫االحزاب‪58:‬‬
‫تبریزی‪،‬مشکوة المصابیح‪ ،‬باب الشفقۃ والرحمۃ۔۔ ‪422/2‬‬
‫خطیب‬
‫ٰ‬
‫ایضا ً‬
‫ایضا ً‬
‫جامع ترمذی‪ ،‬ابواب الزھد‪،‬باب من اتقی المحارم فھو اعبد الناس‪،‬حدیث ‪2305‬‬
‫البقرہ‪256:‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫شدُّ منَ ْالقَتْل ‪" 17‬فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے" کی تشریح‬
‫چکی ہے " عالمہ ماجدی ؒ اس آیت‪َ :‬و ْالفتْنَةُ أ َ َ‬
‫میں فرماتے ہیں کہ مشرکین مکہ مسلمانوں کو جو کفر ‪ ،‬شرک اور بت پرستی پر مجبور کر رہے‬
‫تعالی نے فتنہ قرار دیا ہے‪،‬یعنی فتنہ کا مطلب مذہبی جبر۔ اس سے ظاہر ہے کہ کسی کو‬
‫تھے‪،‬اسے ہللا‬
‫ٰ‬
‫اس کا مذہب بدلنے پر مجبور کرنا اسالم کی نظر میں اسے قتل کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے۔ اسالم‬
‫اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ کسی بھی مذہب کے پیشواؤں کو برا بھال کہا جائے جس سے اس کے‬
‫سبُّوا الَّذینَ یَدْعُونَ م ْن دُون َّ‬
‫ّللا‪" 18‬اور‬
‫پیروکاروں کی دل آزاری ہو چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪َ :‬و َال ت َ ُ‬
‫جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا بھالنہ کہنا "‬
‫مطلب یہ ہے کہ مختلف مذاہب اور ان کے عقائد پر علمی تنقید کرنا ایک الگ چیز ہے‪ ،‬لیکن‬
‫کسی کی دل آزاری کے لیے کسی کو برا بھال کہنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اسالم کسی کی بھی‬
‫عبادت گاہ سے چھیڑ چھاڑ کرنے اور نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا ۔‬
‫‪5‬۔ اظہار رائے کی آزادی‬
‫ایک دوسری چیز جسے آج کل کےمحاورے میں اظہاررائے کی آزادی)‪(Freedom of Expression‬‬
‫کہا جا تا ہے۔اسالم اس کے لیے امر بالمعروف ونھی عن المنکر (نیکی کا حکم اور برائی سے منع) کی‬
‫اصطالح استعمال کرتا ہے ‪ ،‬جس کا تصور اظہار رائے کے تصور سےبہت زیادہ بلند ہے۔ اسالم نہ‬
‫صرف اسے ہر انسان کا حق بلکہ حق کے ساتھ فرض بھی قرار دیتا ہے۔ اسالمی تعلیمات کے مطابق ہر‬
‫انسان کا نہ صرف یہ حق ہے بلکہ فرض بھی ہے کہ وہ بھالئی کی طرف بآلئے اور برائی سے روکے۔‬
‫نہ صرف اس قدر کہ نیکی کو نیکی اور برائی کو برائی کہے بلکہ نیکی کو پھیالنے اور برائی کی راہ‬
‫روکنے کے لیے عملی طور پر جدوجہد بھی کرے۔ جو اسے اس بات سے روکتا ہے وہ نہ صرف اس‬
‫سے اظہار رائے کی آزادی کا حق چھینتا ہے بلکہ اسے اس کا فرض ادا کرنے سے بھی روکتا ہے اور‬
‫تعالی نے‬
‫جس قوم میں حق و سچ کہنے کی جرات نہیں رہتی اسالم کی نظر میں وہ پسماندہ قوم ہے۔ ہللا‬
‫ٰ‬
‫بنی اسرائیل کی پستی کے جو اسباب بتائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو‬
‫‪19‬‬
‫ع ْن ُم ْن َك ٍر فَ َعلُوہُ‬
‫برائی سے نہیں روکتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪َ :‬كانُوا َال َیتَنَاھ َْونَ َ‬
‫" (اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بالشبہ وہ برا کرتے‬
‫تھے"‬
‫مومنوں کی خوبی بیان کرتے ہوئے ہللا فرماتا ہے‪:‬‬
‫ْ ْ َ ‪20‬‬
‫ُك ْنت ُ ْم َخی َْر أ ُ َّم ٍة أ ُ ْخر َج ْ‬
‫عن ال ُمنكر "تم سب سے بہتر امت ہو‪،‬تمھیں‬
‫ت للنَّاس ت َأ ْ ُم ُرونَ ب ْال َم ْع ُروف َوت َ ْن َھ ْونَ َ‬
‫لوگوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے‪ ،‬تم نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو "‬
‫حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫‪21‬‬
‫من رائ منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف االیمان‬
‫"تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے‪ ،‬اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو‬
‫زبان سے روکے‪ ،‬اور اگر زبان سے بھی نہیں روک سکتا تو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا‬
‫کمزور ترین درجہ ہے" حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ نے ایک موقعہ پر عورتوں کے مہر مقرر‬
‫کرنے کی تجویز پیش کی‪ ،‬آپ کا خیال تھا کہ چالیس اوقیہ (چارسودرہم)سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا‬
‫جائے‪ ،‬اور یہ مہر عموما ً نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کا رہا ہے‪،‬اور آپ نے یہ بھی تجویز کیا کہ‬
‫اگر کوئی زیادہ مہر دے گا تو وہ اس سے لے کر بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ اس پر ایک عورت‬
‫‪17‬‬
‫البقرہ‪191:‬‬
‫‪18‬‬
‫االنعام ‪108:‬‬
‫المائدہ‪79:‬‬
‫آل عمران‪110:‬‬
‫صحیح مسلم‪:‬کتاب االیمان‪ ،‬حدیث ‪177‬‬
‫‪19‬‬
‫‪20‬‬
‫‪21‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫کھڑی ہوئی جس نے کہا‪":‬اے امیر المومنین! قرآن مجید نے تو عورتوں کو" کثیر مہر دینے کی بات کی‬
‫ہے" َّو ٰات َ ْیت ُ ْم احْ ٰدى ُھ َّن ق ْن َ‬
‫شیْـًٔاؕ‪ " 22 ۰۰۲۰ ١‬اور تم نے اپنی کسی بیوی کو ڈھیر سارا‬
‫ارا فَ َال تَا ْ ُخذُ ْوا م ْنهُ َ‬
‫ط ً‬
‫مال مہر میں دیا ہو" تو پھر آپ اس سے کس طرح روک سکتے ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ‬
‫‪23‬‬
‫اس سے اندازہ لگایا‬
‫نے فرمایا‪ :‬بے شک عورت صحیح کہہ رہی ہے میں نے غلط کہا "‬
‫جاسکتا ہے کہ اسالم اظہار رائے کی کتنی قدر کرتا ہے۔‬
‫‪6‬۔ مساوات کا حق‬
‫تقوی‬
‫اسالم کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔اگر کسی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو صرف‬
‫ٰ‬
‫اور ذاتی نیکو کاری کی بنیاد پر ۔باقی رنگ ‪ ،‬نسل ‪ ،‬زبان اور وطن کی بنیاد پر کسی کو کوئی فوقیت‬
‫اس إنَّا َخلَ ْقنَا ُك ْم م ْن ذَ َك ٍر َوأ ُ ْنث َ ٰى َو َج َع ْلنَا ُك ْم‬
‫اور برتری حاصل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪ :‬یَا أَیُّ َھا النَّ ُ‬
‫ُ‬
‫ارفُوا ۚ إ َّن أ َ ْك َر َم ُك ْم ع ْندَ َّ‬
‫ّللا أَتْقَا ُك ْم ‪ "24‬لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے‬
‫شعُوبًا َوقَبَائ َل لت َ َع َ‬
‫پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرسکو اور خدا کے نزدیک‬
‫تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے" حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا‪ :‬الفضل لعربی‬
‫االبالتقوی۔‪" 25‬کسی عربی‬
‫علی اسود وال السود علی احمر‬
‫ٰ‬
‫علی عجمی وال لعجمی علی عربی وال الحمر ٰ‬
‫ٰ‬
‫کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی گورے کو‬
‫کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری حاصل ہے‪ ،‬فضیلت اور برتری کا‬
‫تقوی اور پرہیزگاری پر ہے"‬
‫دارومدار صرف‬
‫ٰ‬
‫اسالم برہمن ‪ ،‬کھتری‪ ،‬ویش اور شودر جیسی اونچ نیچ والی روایات کو نہیں مانتا‪ ،‬جن میں کچھ انسانوں‬
‫کو صرف ذات پات کی بنیاد پر دوسرے انسانوں پر اہمیت دی جاتی ہو ‪ ،‬اور نہ ہی اسالم رنگ و زبان‬
‫یا عالقہ ووطن کی بنیاد پر کسی کی برتری کوتسلیم کرتا ہےکیونکہ یہ اسباب در اصل کسی کی برتری‬
‫کا معیار نہیں۔ برتری کا معیار تو انسان کی کسبی چیز ہونی چاہیے جبکہ یہ چیزیں وہبی یا خداداد‬
‫ہیں‪،‬ان میں انسان کے عمل وکسب کا کوئی عمل دخل نہیں‪،‬اس لیے ایسی بنیاد پر کسی کی برتری کو‬
‫تسلیم کرنا غیر معقول بات ہے۔‬
‫‪-7‬معاشی تحفظ‬
‫معنی میں کہ زمین میں‬
‫اسی طرح اسالم سب انسانوں کو معاشی مساوات کا حق دیتا ہے‪ ،‬اس‬
‫ٰ‬
‫موجود وسائل سب کے لیے یکساں ہیں ہرکسی کو حق حاصل ہے کہ وہ محنت وجدوجہد کر کے ان‬
‫کو حاصل کرےچنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪ُ :‬ھ َو الَّذي َخلَقَ لَ ُك ْم َما في ْاْل َ ْرض َجمیعًا‪ " 26‬ہللا وہی ہے‬
‫مطلب یہ ہےکہ زمین میں جو معاشی و‬
‫جس نے زمین کی تمام چیزیں تمھارے لیے پیدا کی ہیں"‬
‫سائل پیدا کیے گئے ہیں ‪ ،‬مجموعی طور پر وہ سب تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں ۔ ہر ایک جدوجہد‬
‫س نَصیبَكَ منَ الدُّ ْنیَا ‪" 27‬اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھالئیے "‬
‫کرکے اپنا حصہ خود حاصل کرے۔ َو َال ت َ ْن َ‬
‫‪28‬‬
‫سعَ ٰى‬
‫سان إ َّال َما َ‬
‫ْس ل ْْل ْن َ‬
‫لیکن ہر ایک کو اتنا حصہ ملے گا جتنی اس نے جدوجہد کی ہوگی۔ َوأ َ ْن لَی َ‬
‫"اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے"‬
‫مطلب یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو یہ پیدائشی حق حاصل نہیں کہ وہ زمین کے وسائل پر قبضہ‬
‫کر کے بیٹھ جائے ‪ ،‬اور دوسروں کو نزدیک ہی آنے نہ دے مثالً یہ کہ کسی بھی کاروبار پر اجارہ‬
‫داری قائم کر لے کہ اس چیز کی صنعت صرف اس کی ہوگی‪،‬کوئی اور ایسی صنعت نہیں لگا سکتا‪ ،‬یا‬
‫‪22‬‬
‫‪23‬‬
‫‪24‬‬
‫‪25‬‬
‫‪26‬‬
‫‪27‬‬
‫‪28‬‬
‫سورہ نساء۔آیت ‪20‬‬
‫عبد الرزاق‪ ،‬المصنف‪،‬ج‪ ،6‬ص ‪ ،180‬حدیث ‪10420‬‬
‫الحجرات‪13:‬‬
‫مسند احمد بن حنبل‪ ،‬حدیث ‪ ،22978‬بروایۃ ابی نضرة۔ وصححہ االلبانی فی الصحیحہ ‪199/6‬‬
‫البقرہ‪29:‬‬
‫القصص‪77:‬‬
‫النجم ‪39:‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫اس روٹ پر ٹرانسپورٹ صرف اس کی چلے گی‪،‬کسی اور کی نہیں چلے گی‪،‬یا کسی خاص چیز کا‬
‫کاروبار صرف وہ کرے گا ‪،‬کوئی اور نہیں کر ے گا وغیرہ۔ بلکہ اسالمی تعلیمات کے مطابق زمین کے‬
‫سارے وسائل سب انسانوں کے لیے برابر ہیں۔ ہر کسی کو آزادی اور اختیار حاصل ہے کہ جائز‬
‫کاروبار میں سے جوبھی چاہے کرے اور زمین میں موجود معاشی وسائل میں سے جو چاہے جدوجہد‬
‫کر کے خود حاصل کرے۔‬
‫لیکن جو جدوجہد کے الئق نہیں ہیں تو خوشحال لوگوں کی ملکیت میں ان کا حق رکھا گیا ہے‪َ :‬وفي‬
‫سائل َو ْال َمحْ ُروم‪" 29‬اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق‬
‫أ َ ْم َوالھ ْم َح ٌّق لل َّ‬
‫ضوا َّ‬
‫سنًا ‪ " 30‬اور خدا کو قرض حسنہ (اچھا اور خلوص نیت سے قرض) دیتے‬
‫ّللاَ قَ ْر ً‬
‫ہے" َوأ َ ْقر ُ‬
‫ضا َح َ‬
‫زکوة ‪ ،‬صدقات اور خیرات کی صورت میں جو مال مسکینوں کو دیا جاتا‬
‫رہو" اس سے ظاہر ہے کہ ٰ‬
‫تعالی کو قرض دیا جاتا‬
‫ہے وہ ان پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے‪ ،‬جو انہیں ادا کیا جاتا ہے۔ یا وہ ہللا‬
‫ٰ‬
‫ہے‪ ،‬جس کا دینے والے کو یقینی طور پر فائد ہ ہوگا۔ اگر اس کے باوجود بھی کچھ مسکین رہ جائیں تو‬
‫ان کی کفالت اسالمی ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ نبی اکرم ؐ نے فرمایا‪ :‬من ترک ماال فللورثۃ ومن ترک‬
‫کال فالینا ‪" 31‬جو مال چھوڑ کر جاتا ہے تو وہ اس کے ورثہ کا حق ہے‪ ،‬لیکن جو ذمہ داریاں چھوڑ کر‬
‫جاتا ہے وہ ہمارے (یعنی حکومت کے) ذمہ ہے"‬
‫اسالمی نقطہ نظر سے ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے باشندوں کو برابری کی بنیاد پر معاشی‬
‫وسائل حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے۔‬
‫‪8‬۔ اہلیت کی بنیاد پر مواقع حاصل کرنے کا حق‬
‫اسالم ہر شہری کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ ریاست کی فالح و بہبود میں اپنا کردار ادا کرے۔‬
‫اس سلسلے میں اسالم اقربا پروری اور ناجائز سفارش کو قطعا ً برداشت نہیں کرتا‪ ،‬خاص طور پر‬
‫سرکاری عہدوں کو اسالم حکمرانوں یا بااختیار لوگوں کے پاس امانت قرار دیتا ہے اور انہیں سختی‬
‫سے حکم دیتا ہے کہ وہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کریں چنانچہ قرآن مجیدمیں ارشاد ہے‪ :‬إ َّن َّ‬
‫ّللاَ‬
‫ّللاَ نع َّما َیع ُ‬
‫ظ ُك ْم به إ َّن َّ‬
‫َیأ ْ ُم ُر ُك ْم أ َ ْن ت ُ َؤدُّوا ْاْل َ َمانَات إلَ ٰى أ َ ْھل َھا َوإذَا َح َك ْمت ُ ْم َبیْنَ النَّاس أ َ ْن تَحْ ُك ُموا ب ْال َعدْل ۚ إ َّن َّ‬
‫ّللاَ‬
‫‪32‬‬
‫یرا‬
‫سمیعًا َبص ً‬
‫َكانَ َ‬
‫"خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کے حوالے کیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ‬
‫کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔خدا تمہیں بہت اچھی نصیحت کرتا ہے ‪،‬بےشک خدا سنتا اور‬
‫دیکھتا ہے"‬
‫حضور کے بہت قریبی ساتھی تھے او ر ذاتی طور پر‬
‫حضرت ابو ذر غفاری رضی ہللا عنہ جو‬
‫ؐ‬
‫آپ‬
‫آپ سے گورنری کے عہدے کے لیے درخواست کرتے ہیں تو ؐ‬
‫نہایت شریف النفس انسان تھے‪ ،‬جب ؐ‬
‫انہیں اس عہدے کے لیے نا اہل سمجھتے ہوئے یہ کہہ کر معذرت کرتے ہیں کہ‪:‬یا ابا ذر انک ضعیف‬
‫وانھا امانۃ وانھا یوم القیمۃ خزی وندامۃ االمن اخذھا بحقہا وادی الذی علیہ فیھا‪" 33‬اے ابو ذر ! تم(اس‬
‫عہدے کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لحاظ سے) کمزور ہو ‪ ،‬اور یہ عہدہ میرے پاس امانت ہے ‪ ،‬اور یہ‬
‫قیامت کے دن خواری اور پشیمانی کا باعث بنےگا سواے اس شخص کے جس نے اسے اہلیت کی بنیاد‬
‫پر حاصل کیا اور اس کی تمام ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھایا"‬
‫آپ سرکاری وسائل کو بھی امانت سمجھتے تھے ‪ ،‬وہ بھی اہلیت کی بنیاد پر ہی‬
‫اسی طرح ؐ‬
‫آپ کی پیاری بیٹی حضرت‬
‫لوگوں کے حوالے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیت المال میں کچھ غالم آئے تو ؐ‬
‫‪29‬‬
‫‪30‬‬
‫‪31‬‬
‫‪32‬‬
‫‪33‬‬
‫الذاریات‪19:‬‬
‫المزمل‪20:‬‬
‫صحیح مسلم ‪،‬کتاب الفرائض‪،‬باب من ترک ماال فلورثتہ ‪،‬حدیث ‪4161‬‬
‫النساء‪58:‬‬
‫صحیح مسلم‪ ،‬کتاب االمارہ‪،‬باب کراہۃ االمارہ بغیر ضرورة‪ ،‬حدیث ‪1825‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫آپ نے یہ کہہ کر معذرت کرلی‬
‫فاطمہ الزھرا رضی ہللا عنہا نے ایک غالم کے لیے درخواست کی تو ؐ‬
‫‪34‬‬
‫کہ "تم سے زیادہ اہل صفہ اس کے مستحق ہیں"‬
‫‪9‬۔ انصاف حاصل کرنے یا قانونی مساوات کا حق‬
‫اسالمی تعلیمات کے مطابق لوگ نہ صرف پیدائشی طور پر برابر ہیں بلکہ انصاف اور قانون‬
‫کی نظر میں بھی برابر ہیں۔ مسلمان اور غیر مسلم ‪،‬دوست اور دشمن ‪ ،‬اپنے اور پرائے کے فرق کے‬
‫بغیر سب کو برابری کی بنیاد پر انصاف ملنا چاہیے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫علَ ٰى أ َ ْنفُس ُك ْم أَو ْال َوالدَ ْین َو ْاْل َ ْق َربینَ ۚ إ ْن یَ ُك ْن غَنیًّا أ ْوَ‬
‫یَا أَیُّ َھا الَّذینَ آ َمنُوا ُكونُوا قَ َّوامینَ ب ْالقسْط ُ‬
‫ش َھدَا َء َّّلِل َولَ ْو َ‬
‫ضوا فَإ َّن َّ‬
‫یرا فَ َّ‬
‫یرا۔‪35‬‬
‫اّلِلُ أ َ ْولَ ٰى بھ َما ۖ فَ َال تَتَّبعُوا ْال َھ َو ٰى أ َ ْن ت َ ْعدلُوا ۚ َوإ ْن ت َْل ُووا أ َ ْو ت ُ ْعر ُ‬
‫ّللاَ َكانَ ب َما ت َ ْع َملُونَ خَب ً‬
‫فَق ً‬
‫"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا‬
‫تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔‬
‫تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے(یعنی صاف صاف‬
‫شہادت نہیں دوگے) یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف‬
‫ہے"‬
‫َ‬
‫َ‬
‫ُ‬
‫ُ‬
‫ْ‬
‫َّ‬
‫شن ُ‬
‫ب للت َّ ْق َو ٰى ۖ َواتَّقُوا‬
‫ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے ‪َ :‬و َال یَجْ ر َمنَّ ُك ْم َ‬
‫علَ ٰى أال ت َ ْعدلوا ۚ اعْدلوا ُھ َو أق َر ُ‬
‫َآن قَ ْو ٍم َ‬
‫‪36‬‬
‫ّللاَ ۚ إ َّن َّ‬
‫َّ‬
‫یر ب َما ت َ ْع َملُونَ‬
‫ّللاَ خَب ٌ‬
‫" اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی‬
‫پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار‬
‫آپ نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے‬
‫ہے" فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کی‪ ،‬چوری ثابت ہونے پر ؐ‬
‫اکرم کو‬
‫کا حکم دیا ۔ صحابہ کرام رضی ہللا عنھم نے حضرت اسامہ بن زید کے واسطے سے نبی‬
‫ؐ‬
‫آپ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫سفارش کروائی کہ اس عورت کا ہاتھ نہ کاٹاجائے‪ؐ ،‬‬
‫فرمایا‪:‬تم سے پہلے لوگ بھی اسی وجہ سے ہالک ہوئے کہ جب کوئی معمولی شخص چوری کرتا تھا‬
‫تو اسے سزا دیتے تھے لیکن جب کوئی با اثر شخص چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔ (لیکن‬
‫آپ نے اپنے فیصلہ پر اٹل رہنے کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا‪ :‬وایم ہللا لو‬
‫میں ایسا نہیں کروں گا)‪،‬پھر ؐ‬
‫‪37‬‬
‫محمد بھی چوری کرتی تو میں‬
‫ان فاطمۃ بنت محمد ؐ سرقت لقطعت یدھا "خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت‬
‫ؐ‬
‫اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا "‬
‫‪10‬۔ ریاستی معامالت میں شرکت کا حق‬
‫اسالم کسی بھی خاندانی ‪ ،‬نسلی یا گروہی ریاست کا قائل نہیں ہے۔ اسالم کی نظر میں ہر مسلمان‬
‫خدا کا نائب ہے اورریاستی معامالت میں شریک ہونے کا پورا پورا حق رکھتا ہے‪ ،‬اور اپنی صالحیتوں‬
‫کی بنیاد پر مشاورتی مجلس کا رکن بن سکتا ہے‪ ،‬چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪َ :‬وشَاو ْر ُھ ْم في‬
‫ْاْل َ ْمر‪"38‬اور ریاستی واجتماعی معامالت میں ان سے مشورہ لیا کرو"‬
‫پھر مسلمانوں کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا‪َ :‬وأ َ ْم ُر ُھ ْم ُ‬
‫ور ٰى بَ ْینَ ُھ ْم ‪ " 39‬اوروہ اپنے کام‬
‫ش َ‬
‫آپس کے مشورے سے کرتے ہیں"‬
‫اس سے ظاہر ہے کہ مجلس مشاورت( پارلیمینٹ کے ممبران) لوگوں کی آزادانہ رائے سے منتخب‬
‫کیے جائیں گے۔ لوگوں کو اور ان کے نمائندوں کو تنقید‪ ،‬اختالف اور اظہار رائے کی آزادی کا حق‬
‫ہوگا اور عوام کو یہ حق حاصل ہوگا کہ جسے چاہیں اسے اپنا حکمران منتخب کریں اور جسے چاہیں‬
‫‪34‬‬
‫‪35‬‬
‫‪36‬‬
‫‪37‬‬
‫‪38‬‬
‫‪39‬‬
‫مسند احمد ج‪،2‬ص‪،202-203‬حدیث ‪838‬‬
‫النساء‪135:‬‬
‫المائدہ‪8:‬‬
‫خطیب تبریزی‪ ،‬مشکوة المصابیح ‪134/2‬‬
‫آل عمران‪159 :‬‬
‫الشوری‪38:‬‬
‫ٰ‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫اسےعہدے سے ہٹادیں۔‬
‫اسالم کی مندرجہ باال تعلیمات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسالم نے انسان کو جو حقوق دیے ہیں‬
‫وہ دنیا کے کسی بھی مذہب یا قانون نے نہیں دیے۔‬
‫اسالمیات‬
‫ت اوالد‬
‫تربی ِ‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫اسالم نے انسانی زندگی کے لیے ایک معتدل فکر و عمل کا نظام دیا ہے۔ اسالمی تعلیمات‬
‫میں جہاں والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی نافرمانی سے سختی سے روکا گیا ہے اور‬
‫ان سے نیک سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے‪ ،‬وہاں اوالد کے حقوق کو بھی وضاحت سے بیان کیا‬
‫گیا ہے اور ان کی ادائگی کی تاکید کی گئی ہے ۔ اسالم کی سماجی زندگی یک رخی نہیں ہے‪ ،‬بلکہ ہمہ‬
‫گیر ہے۔ والدین اگر اسالمی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں تو اوالد اس اکائی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں مل‬
‫کر معاشرے کی تصویر بناتے ہیں۔ آج کے بچے کل کے والدین اور بزرگ ہوں گے‪ ،‬اس لیے اسالم‬
‫بچوں کے بارے میں خصوصی ہدایات دیتا ہے۔ اسالم جہاں بچوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ بڑوں کا‬
‫ادب ‪،‬احترام اور فرمانبرداری کریں ‪،‬وہاں بڑوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ چھوٹوں کے ساتھ محبت و‬
‫شفقت سے پیش آئیں۔ اور ان کے لیے ایثار اور قربانی سے کام لیں۔ حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا‬
‫آپ نے فرمایا‪:‬لیس منا من لم یرحم صغیر نا ولم یوقر کبیر نا۔ ‪" 40‬جو ہمارے‬
‫عنہ سے روایت ہے کہ ؐ‬
‫چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب و احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے"‬
‫اسالم و الدین کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ وہ بچوں کی پرورش پر توجہ دیں ۔ ان کی‬
‫ضرورتوں کو پورا کریں‪ ،‬ان کی غذا کا خیال رکھیں‪ ،‬انہیں گرمی اور سردی سے محفوظ رکھیں‪،‬‬
‫بیماریوں سے بچاؤ کا انتظام کریں اور یہ سب کچھ ان کے فرائض میں داخل ہے۔ والدین کی غفلت کی‬
‫وجہ سے بچے سخت جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچے ابتدائی عمر میں انتہائی‬
‫توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ‪ ،‬والدین کی الپرواہی کی وجہ سے کتنی ہی نفسیاتی اور روحانی بیماریوں‬
‫میں مبتال ہوجاتے ہیں۔‬
‫پرورش کے سلسلے میں خوراک ‪ ،‬لباس ‪ ،‬صاف ستھرا ماحول ‪،‬محبت اور شفقت کا رویہ‬
‫سب شامل ہیں۔ جس طرح جسمانی صحت او ر نشونما کے لیے پرورش بچوں کا حق ہے‪ ،‬اسی طرح ان‬
‫کی ذہنی اور روحانی نشونما اور بالیدگی کے لیے تربیت بھی ان کا حق ہے۔‬
‫پرورش کا تعلق جسمانی بالیدگی سے ہوتا ہے تو تربیت کا تعلق ان کی ذہنی نشونما اور افزائش سے ہوتا‬
‫ہے۔ والدین جس طرح اوالد کے لیے جسمانی آسودگی اور مادی آسائش کا انتظام کرتے ہیں‪ ،‬اسی طرح‬
‫ذہنی اور روحانی آسائش اور سکون فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ بچے کی متوازن شخصیت کی‬
‫نشونما کے لیے ذہنی اور روحانی سہولتیں بے حد ضروری ہیں۔ تربیت کےسلسلے میں سب سےزیاد اہم‬
‫دو چیزیں ہیں۔ ایک تعلیم اور دوسری زندگی کے آداب اور طور طریقے ۔‬
‫تعلیم‬
‫تعلیم انسانی شخصیت کے لیے زیور ہے۔ بچے کی شخصیت کی نشونما کے لیے تعلیم بے حد‬
‫ضروری ہے۔ تعلیم انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی قوت بڑھاتی ہے۔تعلیم انسان میں تہذیب او‬
‫شائستگی پیدا کرتی ہے۔ تعلیم اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ تعلیم انسان میں یہ صالحیت‬
‫پیدا کرتی ہے کہ وہ زمانے کو ‪ ،‬زمانے کے حاالت کو اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھے۔تعلیم انسان‬
‫کو اس الئق بناتی ہے کہ وہ زمانے کے بدلتے ہوئے حاالت کا سامنا کر سکے اور ہر دور میں عزت‬
‫بھری زندگی گزار سکے اور تعلیم انسان کو سماج کے لیے ایک کار آمد انسان اور اچھا شہری بناتی‬
‫ہے۔ یہی سبب ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا‪ :‬طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‪" 41‬علم حاصل کرنا ہر‬
‫مسلمان(مرد و عورت) پر فرض ہے"‬
‫آپ ﷺ نےاپنے چچا زاد بھائی حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنھما کے حق میں دعا مانگتے ہوئے‬
‫فرمایا‪ :‬اللھم فقھہ فی الدین۔ ‪" 42‬اے ہللا ! اسے دین کا علم اور سمجھ عطا کر"‬
‫‪40‬‬
‫‪41‬‬
‫‪42‬‬
‫جامع ترمذی‪ ،‬ابواب البر والصلہ‪ ،‬حدیث ‪1919‬‬
‫سنن ابن ماجہ ‪،‬باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم ‪،‬حدیث ‪224‬‬
‫ابن حجر عسقالنی‪،‬فتح الباری‪ ،170/1 ،‬ذھبی شمس الدین‪،‬سیر اعالم النبالء ‪337/3،‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫بچوں کی تعلیم کا نبی اکرم ؐ کو کتنا خیال تھا‪ ،‬اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ‬
‫بدر میں مشرکین مکہ جو قید ہو کر آئے تھے‪ ،‬ان میں سے جن کے پاس فدیے کے پیسے نہیں تھے‪،‬‬
‫‪43‬‬
‫ان کا فدیہ نبی اکرم ؐ نے یہ مقرر فرمایا کہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو تو تم آزا د ہو"‬
‫آپ نے تعلیم پر انسان کا نہ صرف حق قرار دیا ‪ ،‬بلکہ‬
‫نبی اکرم ؐ کا انسانیت پر یہ عظیم احسان ہے کہ ؐ‬
‫اس سے بڑھ کر تعلیم کو فرض قرار دیا ہے‪ ،‬جب کہ اسالم سے پہلے مختلف مذاہب اور سماجوں نے‬
‫تعلیم کو ایک مخصوص طبقے کا حق قرار دیا تھا۔‬
‫تعلیم کے سلسلے میں اسالم یہ ہدایت دیتا ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ہر وہ علم حاصل کرو جو دنیاوی‬
‫زندگی میں کام آئے ۔ امام غزالی ؒ نے میییکل ‪ ،‬سائنس‪ ،‬انجینئرنگ‪ ،‬ایگریکلچر‪،‬ریاضی اور ہر وہ علم‬
‫جس کی طرف انسان اپنی زندگی میں محتاج ہوتا ہے‪ ،‬اسے سماج کا یکساں فرض (فرض کفایہ) قرار‬
‫دیا ہے۔‪ 44‬مطلب کہ اسالمی ریاست میں ہر اس شعبے میں اتنے اسپیشلسٹ ہونے چاہییں جو اپنے سماج‬
‫کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ نے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ‬
‫تیرنے ‪،‬تیر چالنے‪ ،‬اور گھڑسواری سکھانے کا حکم دیا ۔ آج اگر حضرت عمر رضی ہللا عنہ ہوتے تو‬
‫جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرنے کا حکم دیتے ‪ 45‬اس لیے والدین کا فرض ہے کہ بچوں‬
‫کو قرآن‪ ،‬حدیث اور عقائد کی تعلیم کےساتھ مروجہ سائنس ‪،‬عمرانیات اور جدید صنعت وٹیکناالجی کی‬
‫تعلیم بھی دلوائیں تاکہ وہ زمانے کو سمجھ بھی سکیں تو کوئی جائز اور حالل روزی کا ذریعہ اختیار‬
‫کرکے عزت بھری زندگی بھی گزار سکیں اور سماج کے لیے کارآمد فرد اور اچھے شہری بن سکیں۔‬
‫اسی کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسالم کے پیغام کو دنیا جہان تک پہنچآئے اور یہ‬
‫تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب زمانے کے حاالت کے مطابق انسان کے پاس تعلیم ہو تاکہ لوگوں کو ان کی‬
‫زبان میں اور ان کے طرز استدالل کے مطابق سمجھایا جا سکے۔‬
‫امام غزالی نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ بچوں کو علم پڑھاؤ یا فنی تعلیم دلواؤ تاکہ وہ‬
‫آگے چل کر عزت بھرے طریقے سے روزی کما کر زندگی گزار سکیں ‪ ،‬دوسری صورت میں بچے‬
‫بڑے ہوکر یا تو چور اور ڈاکو بنیں گے ‪ ،‬یا پھر بھیک مانگیں گے۔اور یہ دونوں چیزیں ایک گرے‬
‫‪46‬‬
‫ہوئے معاشرے کی نشانیاں ہیں۔‬
‫آداب سکھانا‬
‫تعلیم کے ساتھ جو چیز بے انتہا ضروری ہے وہ ہے اسالمی آداب سکھانا۔ بچے کو نظم و ضبط‬
‫اعلی اخالق پیدا کرنا والدین کا فرض ہے ۔ نبی اکرم ؐ نے فرمایا‪ :‬الن‬
‫سکھانا‪ ،‬اس میں اچھی عادتیں اور‬
‫ٰ‬
‫‪47‬‬
‫یؤدب احدکم ولدہ خیر لہ من ان یتصدق بصاع "تم میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو (روزانہ)‬
‫ایک ادب سکھائے یہ اس کے لیے اس سے بہترہے کہ روزانہ ایک صاع (گندم) صدقہ کرے" ایک‬
‫دوسری روایت میں آپ کا ارشاد ہے‪ :‬مانحل والدولدہ من افضل من ادب حسن‪" 48‬کسی باپ نے اپنے‬
‫بیٹے کو "اچھے ادب "سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا" یعنی اوال دکو اچھے اخالق سکھانا دنیا کے مال و‬
‫اسباب دینے سے بہتر ہے۔ اس لیے والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو اسالمی طریقے سے کھانے ‪ ،‬پینے‬
‫‪ ،‬لباس پہننے ‪ ،‬بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں سے پیار اور محبت سے پیش آنے ‪ ،‬مجلس کے آداب‬
‫اکرم کے سوتیلے فرزند تھے)‬
‫اور گفتگو کے آداب وغیرہ سکھائیں۔حضرت عمر بن ابو سلمہ (جو نبی‬
‫ؐ‬
‫سے روایت ہے کہ‪" :‬جب میں چھوٹا تھا اور حضور ؐ کی زیر پرورش تھا ان دنوں کی بات ہے کہ ایک‬
‫دن کھانا کھاتے ہوئے میر ا ہاتھ برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا ‪ ،‬یعنی کبھی برتن کے ایک طرف‬
‫‪43‬‬
‫‪44‬‬
‫‪45‬‬
‫‪46‬‬
‫‪47‬‬
‫‪48‬‬
‫سنن ابن ماجہ‪ ،‬مقدمہ ‪،‬حدیث ‪ ،20‬خالد علوی‪ ،‬اسالم کا معاشرتی نظام‪ ،‬ص‪235‬‬
‫غزالی محمدم بن محمد‪ ،‬احیاء علوم الدین‪،‬دار الکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت لبنان‪2012،‬ع طبع ششم‪30/1 ،‬‬
‫خالد علوی‪ ،‬اسالم کا معاشرتی نظام‪ ،‬ص‪236‬‬
‫غزالی‪ ،‬احیاء علوم الدین‪،‬کتاب العلم‬
‫جامع ترمذی ‪ ،‬ابواب البر‪،‬باب ماجاء فی ادب الولد‪،‬حدیث ‪1951‬‬
‫ایضا ‪ ،‬حدیث ‪1952‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫آپ نے‬
‫سے کھا رہا تھا تو کبھی دوسری طرف سے‪ ،‬جب حضور ؐ نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو ؐ‬
‫فرمایا‪ :‬بیٹا ! کھانا کھاتے وقت بسم ہللا پڑھو اور سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور برتن کا جو حصہ تمہارے‬
‫سامنے ہو وہاں سے کھاؤ ( ادھر ادھر سے نوالہ اٹھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے)‪ 49‬اس سے اندازہ لگایا‬
‫آپ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر ان پر تنبیہ کرتے تھے اور صحیح ادب‬
‫جاسکتا ہے کہ ؐ‬
‫سکھاتے تھے۔‬
‫دراصل بچہ خاندان کی تہذیب اور شائستگی کی عکاسی کرتا ہے اور کسی بھی خاندان کا بچہ ان کا‬
‫نمائندہ ہوتا ہے۔ اگر بچوں کو صحیح ادب نہیں سکھایا جائے گا‪ ،‬تو دوسرے لوگ دیکھ کر سمجھ جائیں‬
‫گے کہ یہ خاندان کتنا غیر مہذب اور غیر شائستہ ہے۔ اگر پورے سماج کے بچے ایسے ہوں تو اس سے‬
‫پورے سماج کی تہذیب اور شائستگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ چونکہ بچے خاندان کا اور خاندان‬
‫سماج کا حصہ ہے‪ ،‬اس لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی اخالقی تربیت کی جائے تا کہ وہ‬
‫ایک اچھے سماج کے سفیر بن کر سامنے آئیں۔ اسی طرح بچوں کو حالل و حرام ‪ ،‬جائز ناجائز کی تمیز‬
‫سکھانا بھی والدین کا فرض ہے۔ ایک دفعہ حضور ؐ نے حضرت حسن رضی ہللا عنہ کو صدقے کی‬
‫آپ نے کھجور کا دانا‪ ،‬ان‬
‫کھجور کھاتے ہوئے دیکھ کر فرمایا‪" :‬کخ کخ یعنی اس کھجور کو باہر نکالو‪ؐ ،‬‬
‫کے منہ سے نکلواکر انہیں سمجھایا کہ بیٹا یہ صدقہ کی کھجور ہے اور صدقہ کی چیز ہمارےلیے حالل‬
‫‪50‬‬
‫نہیں ہے"‬
‫یہ ہمارے لیے تعلیم ہے کہ ہر وہ چیز جو شرعی یا اخالقی طور پر ہمارے لیے جائز نہیں ہے‪ ،‬اس‬
‫سے اپنے بچوں کو دور رکھا جائے اور بچوں میں حالل وحرام کی تمیز پیدا کی جائے۔ اسی طرح نماز‬
‫اور روزے کی پابندی یا دوسرے اسالمی احکام کے بارے میں بھی اپنے بچوں کو عملی طور پر تربیت‬
‫دی جائے تاکہ یہ آداب ان کے دل و دماغ میں بیٹھ جائیں ۔ اور یہ سب باتیں بچوں کو عزت اور شفقت‬
‫بھرے انداز میں سکھائی جائیں تاکہ بچے اپنی تذلیل محسوس نہ کریں جیسے نبی اکرم ؐ نے‬
‫فرمایا‪:‬اکرموا اوالدکم و احسنوا بھم‪" 51‬اپنی اوالد کی عز ت کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ "‬
‫اسالم بچوں کی تعلیم و تربیت کو نہ صرف فرض بلکہ ثواب کا عمل تصور کرتا ہے‪ ،‬اور آخرت‬
‫کی نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہے ‪ ،‬جب کہ غیر ذمہ دارارنہ رویے کی صورت میں والدین کو گناہ گار‬
‫تصور کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔اچھے‬
‫افراد جو تعلیم اور تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گے وہ معاشرے کو جنت بنائیں گے اور وہ ایسا‬
‫سماج بنائیں گے جس میں سب لوگ پر امن اورخوشحال زندگی بسر کریں گے۔ اس کے مقابلے میں‬
‫غیر مہذب اور ناتربیت یافتہ افراد کے نتیجے میں غیر مہذب معاشرہ وجود میں آئے گا‪ ،‬جو بگاڑ اور‬
‫فساد کا سبب بنے گا‪ ،‬اس لیے اسالم اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر زور دیتا ہے۔ ویسے تو بچوں‬
‫کی اچھی پرورش ‪ ،‬تعلیم اور تربیت پر ہرمذہب اور معاشرہ زور دیتا ہے ‪ ،‬لیکن اسالم کی خصوصیت‬
‫یہ ہےکہ دوسرے مذاہب یا معاشرے بچے کے وجود میں آنے کے بعد اس کی پرورش ‪ ،‬تعلیم اور‬
‫تربیت کے بارے می ں سوچتے ہیں ‪ ،‬جب کہ اسالم بچے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کے بارے‬
‫میں سوچتا ہے اور مرد وعورت کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنی نسل کے لیے اچھے یا اچھی شریک‬
‫حیات کا انتخاب کرو اور پھر اچھے اور برے شریک حیات کا معیار بھی بتا دیا‪،‬چنانچہ نبی اکرم ؐ‬
‫فرماتے ہیں ‪":‬عام طور پر چار چیزوں کی وجہ سے عورت سے شادی کی جاتی ہے‪1:‬۔مال کی وجہ‬
‫سے‪2،‬۔حسن و جمال کی وجہ سے‪3،‬۔حسب و نسب کی وجہ سے‪4،‬۔دینداری ‪ ،‬اچھے اخالق اور اچھے‬
‫کردار کی وجہ سے۔ (اگر ساری خوبیوں والی عورت مل جائے تو غنیمت ہے‪ ،‬ورنہ) دیندار ‪ ،‬اچھے‬
‫‪49‬‬
‫‪50‬‬
‫‪51‬‬
‫صحیح بخاری‪،‬کتاب االطعمہ‪،‬باب التسمیہ علی الطعام۔۔۔ حدیث‪5376‬‬
‫الزکوة‪،‬باب ما یذکر فی الصدقہ للنبی وآلہ‪،‬حدیث ‪1491‬‬
‫صحیح بخاری‪،‬کتاب‬
‫ٰ‬
‫سنن ابن ماجہ‪ ،‬کتاب االدب‪،‬باب برالولد۔۔۔ حدیث ‪3871‬‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫اسالمیات‬
‫اخالق اور اچھے کردار کی مالکہ عورت کو ترجیح دینا "‬
‫وجہ ظاہر ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے‪ ،‬اس لیے اگر ماں دیندار ‪ ،‬با اخالق اور‬
‫باکردار ہوگی تو بچے پر بھی اچھا اثر پڑے گا‪ ،‬ورنہ جیسے کوےویسی اوالد۔اسی طرح عورت کو بھی‬
‫یہ سوچنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کیسا باپ منتخب کر رہی ہے۔‬
‫‪52‬‬
‫‪52‬‬
‫صحیح بخاری‪ ،‬کتاب النکاح‪،‬باب االکفاء فی الدین‪ ،‬حدیث ‪5090‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫خدمت ِخلق‬
‫خدمت خلق کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی غرض یا بدلے کے اور بغیر کسی اللچ کے خلق خداکی‬
‫مددکرنا؛ کسی کی جان بچانا‪،‬کسی کا عالج کرانا‪،‬کسی زخمی کو ہسپتال تک پہنچانا‪،‬بھوکے کو کھانا‬
‫کھالنا‪،‬پیاسے کو پانی پالنا‪،‬گمراہ کو راہ دکھانا‪،‬بیمار کی بیمارپرسی کرنا‪ ،‬یا تیمارداری کرنا‪ ،‬بے علم‬
‫کو علم سکھانا‪،‬کسی کو اچھا مشورہ دینا‪،‬کسی بے روزگار کو جائز روزگار سے لگانا‪،‬یتیموں‪،‬بیواؤں‬
‫‪،‬اور حاجتمندوں کی حاجت روائی کرنا‪،‬مہمانوں کی مہمانداری کرنا‪،‬یہ سب خدمت خلق کی مختلف‬
‫صورتیں ہیں۔جو شخص بنا کسی غرض وطمع کے نیک نیتی سے خدا کی مخلوق کی کسی بھی‬
‫صورت میں مدد کرتا ہے اس کی اس مدد کو خدمت خلق کہا جاتا ہے۔‬
‫خدمت ِ خلق کا دائرہ‬
‫خدمت خلق کا دائرہ بہت وسیع ہے‪ ،‬اس میں انسان اور حیوان سب شامل ہیں۔ اس میں مسلم اور غیر‬
‫مسلم ‪ ،‬اپنے اور پرائے‪ ،‬دوست اور دشمن کا کوئی بھی فرق نہیں ہوتا ہے۔ خدمت خلق کا تقاضا یہ ہوتا‬
‫ہے کہ بنا کسی فرق کے خلق خدا کی خدمت کی جائے اور ہر وقت کی جائے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد‬
‫ہے‪:‬الخلق عیال ہللا فاحب الخلق الی ہللا من احسن الی عیالہ‪ " 53‬تمام مخلوق ہللا کا کنبہ ہے‪،‬تو ہللا کو‬
‫اپنی خلق سے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے عیال کے ساتھ حسن سلوک کرے" ایک روایت‬
‫میں آپﷺفرمایا‪ :‬فی کل ذات کبد رطبۃ صدقۃ‪" 54‬ہر جاندار چیز کی خدمت کرنا ثواب ہے"‬
‫خدمت خلق کی اہمیت‬
‫اس وقت دنیا میں لو اور دو(‪ )Give and Take‬واال اصول عوام الناس کی فطرت کا الزمی حصہ بن چکا‬
‫ہے ۔ کوئی شخص کسی دوسرے شخص سےاچھا سلوک کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے بدلے‬
‫میں کیا ملے گا؟ جب تک یہ امید نہ ہو تب تک نہ کوئی قدم نیکی کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور نہ کسی‬
‫دوسرے کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ خود غرضی اور نفس پرستی کے اس جذبے کے برعکس دین‬
‫اسالم انسان میں یہ روح پیدا کرنا چاہتا ہے کہ ذاتی مفاد سے بلند تر ہوکر انسانیت کی خدمت کی جائے۔‬
‫اصل میں یہی انسانیت ہے‪ ،‬یہی اخوت ہے اور یہی خدمت خلق ہے۔ یہی عمل دنیا میں نیک نامی کا‬
‫باعث ہے تو آخرت میں ہللا کی رضا اور بندے کی مقبولیت کا سبب ہے ۔ قرآن مجید میں مومنوں کی‬
‫تعالی نے فرمایا‪:‬‬
‫خصوصی صفت کو بیان کرتے ہوئے ہللا‬
‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫‪55‬‬
‫صةٌ ۚ َو َم ْن یُوقَ ُ‬
‫ش َّح نَ ْفسه فَأُولَئكَ ُھ ُم ْال ُم ْفل ُحونَ " اور وہ دوسروں‬
‫َویُؤْ ث ُرونَ َ‬
‫صا َ‬
‫علَ ٰى أ َ ْنفُسھ ْم َولَ ْو َكانَ بھ ْم َخ َ‬
‫کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں خواہ ان کو خود حاجت ہی ہو۔ اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا‬
‫گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں"‬
‫‪56‬‬
‫َوی ْ‬
‫ُطع ُمونَ َّ‬
‫یرا‬
‫علَ ٰى ُحبه مسْكینًا َویَتی ًما َوأَس ً‬
‫ام َ‬
‫الطعَ َ‬
‫"اور باوجود یکہ ان کو خود کھانے کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو‬
‫کھالتے ہیں"‬
‫مطلب کہ مومن کسی سے بھالئی کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ بدلے میں انہیں کیا ملے گا۔ وہ تو‬
‫صرف خدا کی رضا کی خاطر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اسالم کی نظر میں خدمت کا بدلہ لینا تو کیا‬
‫صرف اس کو اپنی بھالئی اور احسان کہنا بھی اس کے اجر کو ضائع کردیتا ہے‪:‬‬
‫ٰۤ‬
‫ْ‬
‫َ‬
‫اّلِل َو الیَ ْوم‬
‫ي یُ ْنف ُق َمالَهٗ رئَا ٓ َء النَّاس َو ال یُؤْ م ُن ب ّٰ‬
‫صدَ ٰقت ُك ْم ب ْال َمن َو ْاالَ ٰذىۙ‪َ ١‬كالَّذ ْ‬
‫ٰیاَیُّ َھا الَّذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال تُبْطلُ ْوا َ‬
‫ْٰ‬
‫االخرؕ‪" 57 ١‬مومنو! اپنے صدقات (وخیرات)احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد‬
‫مشکوة المصابیح ‪425 /2‬‬
‫‪ 53‬خطیب تبریزی‪،‬‬
‫ٰ‬
‫‪ 54‬صحیح بخاری‪ ،‬کتاب االدب‪ ،‬باب رحمۃ الناس والبہائم‪ ،‬ح ‪6008‬‬
‫‪ 55‬الحشر ‪9:‬‬
‫‪ 56‬الدھر ‪8:‬‬
‫‪ 57‬البقرہ ‪264 :‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫نہ کردینا‪ ،‬جو لوگوں کو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں‬
‫رکھتا"‬
‫خدمت ِخلق کے بارے میں احادیث‬
‫تعالی اپنے ایک بندے سے فرمائے گا‪:‬اے میرے‬
‫‪1‬۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا‪":‬قیامت کے دن ہللا‬
‫ٰ‬
‫بندے میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھالیا‪ ،‬میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پالیا ‪ ،‬میں‬
‫بیمار تھا تو نے میری تیمارداری نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار! آپ تو ان سب باتوں‬
‫تعالی فرمائے گا‪:‬میرا فالں بندہ پیاسا تھا ‪،‬تو‬
‫سے پاک ہیں۔ آپ کو بھوک اور پیاس کی کیسی حاجت؟ ہللا‬
‫ٰ‬
‫نے اسے پانی نہ پالیا ‪ ،‬گویا کہ تونے مجھے پانی نہ پالیا ‪ ،‬میرا فالں بندہ بھوکا تھا‪ ،‬تو نے اسے کھانا‬
‫نہ کھالیا ‪ ،‬گو یا مجھے کھانا نہ کھالیا ‪ ،‬میرافالں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی تیما ردای نہ کی گو یا کہ‬
‫تو نے میری تیمارداری نہ کی‪ ،‬میرا فالں بندہ محتاج تھا تو نے اس کی حاجت پوری نہ کی گویا کہ تو‬
‫تعالی فرشتوں کو حکم دیں گے جو اس کو دوزخ میں جا کر‬
‫نے میری حاجت پوری نہ کی۔ اس وقت ہللا‬
‫ٰ‬
‫‪58‬‬
‫ڈالیں گے۔‬
‫آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫‪2‬۔ ایک موقعے پر خدمت خلق کے جذبے کو ابھارتے ہوئے ؐ‬
‫"تم مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے‪ ،‬محبت کرنے اور شفقت سے پیش آنے میں ایک‬
‫جسم کی طرح دیکھو گے‪ ،‬جب جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے‬
‫‪59‬‬
‫خوابی اور بخار میں مبتال ہوجاتا ہے"‬
‫تعالی قیامت کے دن اس‬
‫‪3‬۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪ :‬جو شخص مسلمان کی کسی تکلیف کو دور کرے گا تو ہللا‬
‫ٰ‬
‫تعالی‬
‫کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا ‪ ،‬ہللا‬
‫ٰ‬
‫دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا‪ ،‬اور جو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا‪ ،‬تو‬
‫تعالی اس کی دنیا و آخرت میں سترپوشی کرے گا اور ہللا اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب‬
‫ہللا‬
‫ٰ‬
‫‪60‬‬
‫تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے"‬
‫‪4‬۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪ :‬جس نے ہللا کی راہ میں جہاد کرنے والے کو سامان فراہم کیا گو یا کہ اس نے جہاد‬
‫‪61‬‬
‫کیا اور جس نے مجاہد کے گھر والوں کی دیکھ بھال کی تو گو یا وہ بھی جہاد میں شریک ہوا"‬
‫آپ نے نہ صرف خدمت خلق کی ترغیب دی بلکہ آپ ؐ عملی طور پر خود خدمت خلق میں مصروف‬
‫‪ؐ 5‬‬
‫رہتے تھے‪ ،‬یہی سبب تھا کہ آپ ؐ نے پہلی وحی نازل ہونے کے بعد جب بی بی خدیجہ رضی ہللا عنہا‬
‫آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫سے اس کا ذکر کیا اور اپنی گھبراہٹ کا اظہار کیا تو بی بی صاحبہ نے ؐ‬
‫كال أبشر فوہللا ال یخزیك ہللا أبدا وہللا إنك لتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري‬
‫الضیف وتعین على نوائب الحق‪"62‬آپ ؐ کو ہر گز نہیں گھبرانا چاہیے ‪ ،‬آپ خوش رہیں ‪ ،‬خدا کی قسم! ہللا‬
‫آپ کوکبھی اکیال نہیں چھوڑے گا۔ خدا کی قسم ! آپ رشتے جوڑتے ہیں‪ ،‬آپ سچ بولتے ہیں‪،‬‬
‫حاجتمندوں کی حاجت پوری کرتے ہیں‪ ،‬غریبوں کی مالی مدد کرتے ہیں‪ ،‬آپ مہمان نواز ہیں‪ ،‬آپ حق‬
‫کے معاملے میں لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں (بھال ایسی خدمت خلق کرنے والے شخص کو ہللا‬
‫تعالی کیسے اکیال چھوڑیں گے؟)‬
‫ٰ‬
‫آپ نے ان‬
‫تھا۔‬
‫نہ‬
‫کچھ‬
‫پاس‬
‫کے‬
‫ان‬
‫لیے‬
‫کے‬
‫ولیمے‬
‫لیکن‬
‫کی‬
‫شادی‬
‫نے‬
‫عنہ‬
‫ہللا‬
‫رضی‬
‫صحابی‬
‫ایک‬
‫‪7‬۔‬
‫ؐ‬
‫سے فرمایا‪ :‬عائشہ رضی ہللا عنہا کے پاس جاؤ اور اس سے آٹے کی تھیلی مانگ کر لے آؤ ‪ ،‬وہ‬
‫صحابی رضی ہللا عنہ گئے اور وہ آٹے کی تھیلی لے آئے ‪ ،‬حاالنکہ نبوی گھرانے میں اس آٹے کے‬
‫‪58‬‬
‫‪59‬‬
‫‪60‬‬
‫‪61‬‬
‫‪62‬‬
‫صحیح مسلم ح نمبر ‪6565‬‬
‫صحیح البخاری ‪ ،‬باب رحمۃ الناس والبھائم‪ ،‬ح ‪6011‬‬
‫مشکوة المصابیح ‪:‬کتاب العلم ‪ 32 /1‬بحوالہ مسلم‬
‫ٰ‬
‫سنن ابی داؤ ‪ ،‬باب الجھاد ‪،‬ح نمبر ‪2509‬‬
‫صحیح البخاری‪ ،‬تفسیر العلق ح نمبر ‪4953‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫سواشام کو کھانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا"‬
‫آپ کے نزدیک خدمت خلق کے حوالے سے اپنے اور پرائے‪ ،‬دوست اور دشمن کے درمیان کوئی‬
‫‪8‬۔ ؐ‬
‫آپ بے تاب ہوجاتے تھے۔ جب تک اس‬
‫فرق نہیں تھا‪ ،‬جب بھی کسی کو تکلیف میں دیکھتے تھے تو ؐ‬
‫آپ کو آرام نہیں آتا تھا۔ مکہ کے مشرکین کی دشمنی کی سب کو خبر ہے ‪ ،‬لیکن‬
‫کی مدد نہ کرتے تھے ؐ‬
‫آپ نے مکہ کے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کےلیے‬
‫آپ کی ہجرت کے بعد جب وہاں قحط پڑا تو ؐ‬
‫ؐ‬
‫‪64‬‬
‫پانچ سو دینار اکٹھے کر کے بھیج دیے۔‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬بیوہ عورتوں اور مسکینوں کی مدد کے لیے کوشش کرنے واال‬
‫‪9‬۔ ایک روایت میں ؐ‬
‫ایسا ہے جیسے ہللا کی راہ میں جہاد کرنے واال یا ساری رات عبادت کرنے اور سارا دن روزہ‬
‫‪65‬‬
‫رکھنے واال"‬
‫‪10‬۔ جس شخص نے ہللا کی رضا کے لیے یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا‪ ،‬تو اسے اتنی نیکیاں ملیں‬
‫گیں جتنے اس کے سر کے بال اس کے ہاتھ کےنیچے آئیں گے‪ ،‬جس شخص نے یتیم بچی یا لڑکی سے‬
‫اچھا سلوک کیا تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ساتھ ہیں‬
‫‪66‬‬
‫آپ نے شہادت اور بیچ والی انگلی کو مال کر دکھایا"‬
‫۔اس وقت ؐ‬
‫مطلب کہ ہر مستحق کی مدد کرنی چاہیے خاص طور پر ان کی جو زیادہ حاجتمند ہیں‪ ،‬جیسے بیوہ‬
‫عورتیں ‪ ،‬یتیم بچے اور مسکین عیالدار ‪ ،‬یہ مدد کے زیادہ مستحق ہیں‪ ،‬اس لیے ترجیحی بنیادوں پر ان‬
‫کی مدد کرنی چاہیے۔اور خلق خدا کی دل آزاری سے بچنا چاہیے۔‬
‫خدمت خلق کے حوالے سے صوفیاء کے اقوال‬
‫خدمت خلق کے حوالے سے شیخ سعدی فرماتے ہیں ‪ :‬دل بدست آور کہ حج اکبری است" لوگوں کو فائدہ‬
‫پہنچا کر ان کے دل خوش کرو کہ یہ حج اکبری ہے"‬
‫طریقت بجز خدمت خلق نیست۔۔۔۔ بتسبیح وسجادہ ودلق نیست‬
‫" طریقت خدمت خلق کے عالوہ اور کسی چیز کا نام نہیں‪،‬تسبیح‪،‬وجائے نماز وگدڑی کا نام نہیں"‬
‫حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں‪":‬قیامت کے بازار میں کوئی اسباب اس قدر قیمتی نہ ہوگا جس‬
‫قدر دلوں کو راحت پہنچانا"‬
‫حافظ شیرازی کہتے ہیں‪ :‬مباش درپئے آزار وہرچہ خواہی کن۔کہ در طریقت ما بیش ازیں گناہ نیست‬
‫" خلق خدا کی اذیت کے در پلیے مت پڑو ‪،‬باقی جو چاہو کرو‪،‬کیونکہ ہماری شریعت میں خلق آزاری‬
‫سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں"‬
‫۔۔۔۔ کہ ہے ساری مخلوق کنبہ‬
‫موالنا الطاف حسین حالی نے کہا تھا‪ :‬یہ پہال سبق تھا کتاب ہدی کا‬
‫‪67‬‬
‫خدا کا‬
‫‪63‬‬
‫جانوروں پر رحم‬
‫اسالم نے نہ صرف انسانوں کے حقوق بتائے اور ان کی خدمت کا درس دیا ہے بلکہ اس نے جانوروں‬
‫کے بھی حقوق بتائے اور ان کی خدمت کا بھی درس دیا ہے۔ نبی کریم ؐ کی آمد سے پہلے عرب میں‬
‫بے زبانوں کے ساتھ سالوں سے جو ظلم ہو رہے تھے‪ ،‬انہیں نبی کریم ؐ نے ختم کروایا ‪ ،‬آپ ﷺ سے‬
‫آپ نے اس‬
‫پہلے زندہ جانور وں کے جسم سے گوشت کے ٹکڑےکاٹ کر انھیں پکا کر کھاجاتے تھے۔ ؐ‬
‫آپ نے روکا اور فرمایا‪ :‬دُم ان کے‬
‫سے منع فرمایا‪ ،‬جانوروں کی دُم اور گردن کے بال کاٹنے سے ؐ‬
‫لیے (مکھی اور مچھر سے بچانے کےلیے) پنکھا ہےا ور گردن کے بال ان کے لیے چادر ہیں‪،‬‬
‫‪63‬‬
‫‪64‬‬
‫‪65‬‬
‫‪66‬‬
‫‪67‬‬
‫مسند احمد ‪ ،‬ج‪ ،6:‬ص‪367:‬‬
‫ڈاکٹر محمد حمید اہللا‪،‬رسول اکرم ﷺکی سیاسی زندگی‪،‬ص ‪١۰۴‬‬
‫صحیح بخاری‪ ،‬باب الساعی علی االرملۃ‪ ،‬ح ‪6006‬‬
‫مشکواة المصابیح ‪ ،‬باب الشفقہ‪ 423/1 ،‬بحوالہ احمد والترمذی‬
‫ڈاکٹر بشیر احمد رند‪ ،‬تصوف قرآن و حدیث کی روشنی میں‪ ،‬اورینٹل کالیج میگزین‪،‬آکتوبر تا دسمبر ‪ ،2013‬ج ‪ ،88‬ش‪ ،330‬ص‪129‬‬
‫اسالمیات‬
‫باب سوم ‪ :‬معروضی مسائل‬
‫جانوروں پرسازو سامان رکھ کر دیر تک کھڑا رکھنے سے بھی منع کیا اور فرمایا ‪ :‬جانوروں کی‬
‫پیٹھوں کو اپنی کرسیاں مت بناؤ (کہ جانوروں پر بیٹھ کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہو) اسی طرح‬
‫جانوروں کو آپس میں لڑوانے سے بھی منع فرمایا۔ ایک بے رحمی کا دستور تھا کہ کسی جانور کو‬
‫تھے۔آپ نے ایسی سنگ دلی‬
‫باندھ کر اسے نشانہ بناتے تھے اور اس پر تیر اندازی کی مشق کیا کرتے‬
‫ؐ‬
‫آپ نے ایک سفر میں ایک صحابی رضی ہللا عنہ کو دیکھا کہ وہ چڑیا‬
‫سے قطعی طور پر منع فرمایا۔ ؐ‬
‫آپ نے اس صحابی کو حکم دیا کہ چڑیا کا‬
‫کا انیہ اٹھا آلئے تھے‪ ،‬چڑیا بےقرار ہوکر پر مار رہی تھی۔ ؐ‬
‫انیہ واپس اسی جگہ پر رکھ آؤ۔ آپ ؐ نے ایک صحابی کی چادر میں چڑیا کےبچے چھپے ہوئے دیکھے‬
‫آپ نے اس‬
‫اور ان کی ماں کو اس صحابی کے چاروں طرف بے قرار ہوکر چکر کاٹتے دیکھا ‪ ،‬تو ؐ‬
‫آپ نے راستے میں‬
‫صحابی کو ہدایت کی کہ اس کے بچے واپس اسی جگہ پر رکھ کر آؤ۔ ایک دفعہ ؐ‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬ان‬
‫ایک ایسا اونٹ دیکھا جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے پیٹھ سے لگ چکا تھا‪ؐ ،‬‬
‫آپ نے ایک‬
‫جانوروں کے بارے میں خدا سے ڈرو۔ جانوروں کو آرام پہنچانے کی ترغیب دیتے ہوئے ؐ‬
‫واقعہ سنایا" ایک شخص سفر میں تھا‪ ،‬اس کو پیاس لگی‪ ،‬کنواں دیکھ کر اس میں اتر گیا۔ پانی پی کر‬
‫باہر نکال تو باہر ایک کتا دیکھا جو پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی چوس رہا تھا‪ ،‬مسافر کنویں میں اترا‪،‬‬
‫اپنا موزہ پانی سے بھرکر باہر لے آیا ‪ ،‬اور کتے کو پال کر اس کی پیاس بجھائی۔ خدا کی بارگاہ میں اس‬
‫کا یہ عمل اتنا مقبول ہوا کہ اس کی بخشش ہوگی‪ ،‬صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین نے عرض کیا‪،‬‬
‫آپ نے فرمایا ‪ :‬ہر جاندار کی خدمت میں اجر ہے"۔ایک‬
‫کیا جانوروں کی خدمت میں بھی اجر ملے گا‪ؐ ،‬‬
‫دوسری روایت میں آپ ﷺ نےفرمایا‪ :‬ایک عورت نے بلی کو باندھ دیا پھر نہ اسے پانی پالیا اور نہ‬
‫اسے کھانا کھالیا‪ ،‬اور نہ اسے آزاد چھوڑ دیا کہ زمین سے کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی زندگی بچاتی‪،‬‬
‫وہ بھوک اور پیاس میں تڑپ تڑپ کر مرگئی‪ ،‬جس کی وجہ سے ہللا نے اس عورت کو دوزخ میں بھیج‬
‫‪68‬‬
‫دیا۔‬
‫ذکر کردہ اسالمی تعلیمات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسالم کی نظر میں خدمت خلق کی کتنی بڑی‬
‫اہمیت ہے۔ لیکن آج اس شعبے میں ہم مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ فطری دستور ہے کہ جب کوئی‬
‫جگہ خالی چھوڑدی جاتی ہے تو وہ جگہ کوئی نہ کوئی پُر کردیتا ہے۔ آج ‪ N.G.Os‬کے نام سے غیر‬
‫مسلم یہ کام کررہے ہیں ۔ پھر خدمت خلق کے نام پر وہ اپنی تہذیب اور اپنا کلچر بھی ہم پر مسلط کر‬
‫رہے ہیں اور ہم صرف اس گلے شکوے میں پورے ہیں کہ ‪ N.G.Os‬نے ہمارے ایمان‪ ،‬اخالق اور‬
‫تہذیب کو تباہ کردیا ہے۔ اس کا اصلی حل تو یہی ہے کہ یہ کام ہم خود کریں‪ ،‬تا کہ کسی غیر کو ہماری‬
‫تہذیب تباہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔‬
‫‪68‬‬
‫ندوی سید سلیمان‪ ،‬سیرت النبی‪169/6،‬۔‪171‬‬
Download