اسالمیات بنیادی انسانی حقوق باب سوم :معروضی مسائل ((Basic Human Rights موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی بات بڑے پیمانے پر ہورہی ہے بلکہ صحیح الفاظ میں انسانی حقوق کی بات ایک فیشن کی صور ت اختیار کرچکی ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ در حقیقت انسانوں نے ہی انسانوں پر بہت بڑےظلم ڈھائے ہیں اور بہت بڑی زیادتیاں کی ہیں ۔ اس لیے انسان کے بارے میں خود انسانوں میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا رہا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کیا ہیں؟ االعلی مودودی کے بقول ":قانون فطرت نے ایک حیوان کو دوسرے حیوان کے لیے اگر سید ابو ٰ غذا بنایا ہے تو وہ صرف غذا کی حد تک ہی اس پر دست درازی کرتا ہے۔ کوئی درندہ ایسا نہیں ہے جو غذائی ضرورت کے بغیر یا اس ضرورت کے پورا ہوجانے کے بعد بالوجہ جانوروں کو مارتا چال جاتا ہو۔خود اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نوع حیوانی کا وہ سلوک نہیں ہے جو انسان کا اپنے افراد کے ساتھ ہے۔جب سے انسان زمین پرآباد ہوا ہے اس وقت سے آج تک تمام حیوانات نے اتنے انسانوں کی جانیں نہیں لی ہیں جتنی انسانوں نے دوسری جنگ عظیم میں انسانوں کی جانیں لی ہیں(کہ چھ کروڑ لوگوں کی جانیں لے لیں)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانون کو فی الواقع دوسرے انسانوں کے بنیادی حقوق کی کوئی تمیز نہیں ہے۔صرف ہللا ہی ہے جس نے انسان کی رہنمائی اس باب میں کی ہے اور اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانی حقوق کی واقفیت بہم پہنچائی ہے۔در حقیقت انسانی حقوق متعین کرنے واال انسان کا خالق ہی ہو سکتا ہے چنانچہ اس خالق نے انسان کے حقوق نہایت تفصیل سے 1 بتائے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے مغربی دنیا میں گیاروہیں صدی ہجری سے تحریک شروع ہوئی۔ وقتاَََ فوقتاَََ مغربی حکمران اپنے باشندوں کو حقوق دیتے رہے۔ باآلخر 20ویں صدی کے درمیان میں اقوام متحدہ کے ادارے نے عالمی منشور کے طور پر کچھ حقوق منظور کیے اور میمبر ممالک کو ان پر پابند رہنے کی تاکید کی۔ جب کہ پیغمبر اسالم حضرت محمدﷺ نے تقریبا ً ساڑھےچودہ سو سال پہلے ساتویں صدی کی شروعات میں حجۃ الوداع کے خطبہ میں انسانی بنیادی حقوق کا عالمی منشور پیش کیا اور مسلمانوں کو اس پر پابند رہنے کی تلقین کی۔اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر دراصل خطبۂ حجۃ الوداع کے منشور کی جدید اور اضافہ شدہ صورت ہے۔ اسالم نے ہر انسان کو بال تفریق وطن ،مذہب ،رنگ و نسل کے جو حقوق دیے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں: 1۔ جان کا تحفظ اسالم کی نظر میں ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کی جان محفوظ رہے ،چاہے وہ کسی بھی مذہب ،رنگ ،نسل ،زبان یا وطن سے تعلق رکھتا ہو۔ کسی انسان کی جان ناحق طریقے سے لینے کو اسالم پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: 2 َ َ َ َّ َّ ْ َ َ اس َجمیعًا َم ْن قَت َ َل نَ ْف ً سا بغَیْر نَ ْف ٍس أ َ ْو فَ َ اس َجمیعًا َو َمن أحْ یَاھَا فكأن َما أحْ یَا الن َ سا ٍد في ْاْل َ ْرض فَ َكأَنَّ َما قَت َ َل النَّ َ "جس شخص نےکسی کو (ناحق) قتل کیا (یعنی) بغیر اس کے کہ اس سے جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے ،اُس نے گویا تمام انسانیت کو قتل کیا اور جس نے اس کی زندگی بچائی تو گویا اس نے تمام انسانیت کی جان بچائی" اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہے کہ ریاست کو کسی انسان کی جان لینے کا اختیار صرف دو صورتوں میں ہے :ایک یہ کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو ناحق قتل کرے تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا یا کوئی شخص زمین میں فساد پھیآلئے جیسے مسلح بغاوت یا لوٹ مار وغیرہ۔ ایک دوسری آیہ میں ایک مومن کے ناحق قتل کی پانچ سزائیں بتائی گئی ہیں: 1 2 اسالمی ریاست550: المائدہ32: اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل ً ٰلدا ً فجزآئہ جھنم خ ً متعمدا ومن یقتل مؤمنا ً3 ً عظیما فیھا وغضب للا علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا " اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا ً قتل کردے تو اس کی سزا جھنم ہے،جس میں وہ ہمیشہ رہے گا،اور ہللا اس پر غضبناک ہوگا،اور اس پر لعنت کرے گا،اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار رکھے گا" 4 رسول ہللا ﷺ نے شرک کے بعد قتل نفس کو بہت بڑا گناہ شمار کیا ہے اور آپ ﷺ نے مومن کی صفات علی دمائھم واموالھم " 5اصل مومن تو وہ ہے جس سے بتاتے ہوئے فرمایا :والمؤمن من امنہ الناس ٰ لوگوں کے خون اور مال محفوظ رہیں" اس اخالقی نصیحت کے بعد اسالم نے انسانی جان کے تحفظ کے لیے قانون قصاص ودیت دیا تا کہ انسانیت محفوظ رہے۔ 2۔ مال کا تحفظ اسالم نے جس طرح کسی کی جان میں ناجائز دست اندازی کو حرام قرار دیا ہے ،اسی طرح کسی کے مال میں بھی ناجائزدست اندازی کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:یَا أَیُّ َھا الَّذینَ اض م ْن ُك ْم" 6اے ایمان والو! ایک دوسرے کا ع ْن ت ََر ٍ ارة ً َ آ َمنُوا َال ت َأ ْ ُكلُوا أ َ ْم َوالَ ُك ْم بَ ْینَ ُك ْم ب ْالبَاطل إ َّال أ َ ْن ت َ ُكونَ ت َج َ مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ،سوائے اس کے کہ باہمی رضامندی سے لین دین ہو" اسالم کی نظر میں انسان کا مال بھی اتنا ہی قابل احترام ہے جتنی کہ اس کی جان قابل احترام ہے۔عرب کے لوگ حج کے دن ،حج کے مہینوں اور شہر مکہ مکرمہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے سوا الکھ صحابہ کرام عربوں کے مزاج اور محاورے کے مطابق حجۃ الوادع کے خطبے میں ؐ رضوان ہللا علیہم اجمعین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :فان دمائکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شہرکم ھذا" 7تمہاری جانیں ،تمہارے مال اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے کے لیے اسی طرح محترم ہیں جیسے آج کا دن تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں آپ نے فرمایا :اال ال تظلموا ،اال ال یحل مال امری اال بطیب نفس تمہارے لیے محترم ہے"۔ ایک موقع پر ؐ منہ" 8خبردار! کسی پر ظلم مت کرنا ،خبردار! کسی بھی شخص کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر آپ نے فرمایا :من اخذ شبرا من االرض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیمۃ من حالل نہیں ہے"۔ ایک روایت میں ؐ سبع ارضین" 9جس شخص نے ایک بالشت کے برابر کسی کی زمین پرناجائز قبضہ کیا ،قیامت کے دن سات زمینوں تک وہ اس کی گردن میں ڈالی جائے گی ،یعنی اس کے وزن کے برابر تکلیف میں اسے مبتال کیا جائے گا" چوری،ڈاکہ زنی،غبن،ناپ تول میں کمی بیشی،مالوٹ،سود خوری،کام چوری،قمار بازی،حرام چیزوں اور حرام عمل کا کاروبار اور دوسری بہت ساری چیزوں کو اسالم نے حرام قرار دیا تا کہ لوگوں کا مال محفوظ رہے۔ پھر اسالم نے مال کے تحفظ کے لیے صرف وعظ ونصیحت کو کافی نہیں سمجھا بلکہ اس کے لیے قانون بھی بنایا ہےچنانچہ چور کا ہاتھ کاٹنا،ڈاکو کا دایاں ہاتھ اور بایاں پیر کاٹنا،جرمانہ وغیرہ۔ مال چونکہ خون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی کا خون نکاال جائے تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے اسی طرح اگر کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کیا جائےتو اس کا بھی عزت کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے اسالم مال کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ 3النساء 93 : 4خطیب تبریزی ،مشکواة المصابیح 17 /1 5ایضا ً ص 15بروایۃ ابی ہریرہ رضی ہللا عنہ 6النساء29: 7صحیح بخاری ،کتاب الحج ،باب الخطبہ ایام منی ،حدیث 1739 8مسند احمد بن حنبل ،حدیث ،15488 9خطیب تبریزی ،مشکوة المصابیح ،باب الحصب والعاریہ 254 /1 اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل 3۔ عزت کا تحفظ اسالم کی نظر میں یہ بھی ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ اس کی عزت کا تحفظ کیا جائے۔ اسی لیے اسالم اپنے پیروکاروں کو کسی کا مذاق اڑانے،طعنے دینے،کسی کا برا نام رکھنے،کسی میں بالوجہ بدگمانی کرنے،کسی کے عیب تالش کرنے،اور کسی کی غیبت کرنے جیسے اعمال سے روکتا ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی تذلیل ہوتی عسٰٰۤ ى ا َ ْن یَّ ُك ْونُ ْوا َخی ًْرا م ْن ُھ ْم ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہےٰٰۤ :یاَیُّ َھا الَّذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال یَ ْسخ َْر قَ ْو ٌم م ْن قَ ْو ٍم َ س اال ْس ُم سآءٍ َ عسٰٰۤ ى ا َ ْن یَّ ُك َّن َخی ًْرا م ْن ُھ َّنَۚ ١و َال ت َْلم ُز ٰۤ ْوا ا َ ْنفُ َ سا ٓ ٌء م ْن ن َ َو َال ن َ س ُك ْم َو َال تَنَابَ ُز ْوا ب ْاالَ ْلقَابؕ ١بئْ َ ٓ ٰۤ ٰ ٰ َّ َّ ّٰ َّ س ْو ُق بَ ْعدَ ْاال ْی َمانَۚ ١و َم ْن ل ْم یَتُبْ فَاُول ِٕىكَ ُھ ُم الظل ُم ْونَ ٰ ۰۰١١یاَیُّ َھا الذیْنَ ا َمنُوا اجْ ت َنب ُْوا َكثی ًْرا منَ الظن١ٞ ْالفُ ُ ض َّ ضاؕ"10١اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا الظن اثْ ٌم َّو َال ت َ َج َّ ض ُك ْم بَ ْع ً س ْوا َو َال یَ ْغتَبْ بَّ ْع ُ س ُ ا َّن بَ ْع َ مذاق نہ اڑائے ،ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی کچھ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں،ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں،اور نہ ایک دوسرے کو طعنے دو اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو،ایمان کے بعد فسق کا نام رکھنا بہت بری بات ہے۔اور جو ابھی بھی باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں،اور کسی کے عیب تالش نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو"ایک اور آیت میں ارشاد ہےَ :والَّذینَ یُؤْ ذُونَ ْال ُمؤْ منینَ سبُوا فَقَد احْ ت َ َملُوا بُ ْھت َانًا َوإثْ ًما ُمبینًا" 11اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں َو ْال ُمؤْ منَات بغَیْر َما ا ْكت َ َ کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا " 12 حضور اکرم ؐ نے فرمایا :کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ۔ "ہر مسلمان کی جان ،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے" 13 آپ کا ارشا د ہے :بحسب امرا من الشر ان یحقرا خاہ المسلم "کسی شخص کے ایک روایت میں ؐ برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کمتر سمجھے" حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :والذی نفسی بیدہ الیومن احدکم حتی یحب الخیہ مایحب لنفسہ" 14اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص تب تک مومن نہیں ہوسکتا ،جب تک وہ اپنے بھائی کےلیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے" ایک روایت میں فرمایا :واحب للناس ماتحب لنفسک تکن مسلما ً " 15لوگوں کے لیے بھی وہی چیز پسند کر جو تواپنے لیے پسند کرتا ہے تب تم پکےمسلمان بنوگے" ا ور ظاہر بات ہے کہ کوئی انسان اپنی تو ہین پسند نہیں کرے گا ،اس لیے اسے یہ احساس دالیا گیا کہ دوسروں کےلیے بھی وہ وہی سوچے جو وہ اپنے لیےسوچتا ہے۔ 4۔عقیدے اور مذہب کی آزادی اسالم نے ہر شخص کو عقیدے اور مذہب کی آزادی کا حق دیا ہے۔ کسی کو اس کا مذہب یا عقیدہ چھوڑنے یا دوسرا مذہب قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو اس کی مذہبی الر ْشدُ منَ عبادات و رسومات سے روکا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہےَ :ال إ ْك َراہَ في الدین ۖ قَ ْد تَبَیَّنَ ُّ ْالغَي" 16دین (اسالم) میں زبردستی نہیں ہے ،ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو 10 11 12 13 14 15 16 الحجرات11:۔12 االحزاب58: تبریزی،مشکوة المصابیح ،باب الشفقۃ والرحمۃ۔۔ 422/2 خطیب ٰ ایضا ً ایضا ً جامع ترمذی ،ابواب الزھد،باب من اتقی المحارم فھو اعبد الناس،حدیث 2305 البقرہ256: اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل شدُّ منَ ْالقَتْل " 17فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے" کی تشریح چکی ہے " عالمہ ماجدی ؒ اس آیتَ :و ْالفتْنَةُ أ َ َ میں فرماتے ہیں کہ مشرکین مکہ مسلمانوں کو جو کفر ،شرک اور بت پرستی پر مجبور کر رہے تعالی نے فتنہ قرار دیا ہے،یعنی فتنہ کا مطلب مذہبی جبر۔ اس سے ظاہر ہے کہ کسی کو تھے،اسے ہللا ٰ اس کا مذہب بدلنے پر مجبور کرنا اسالم کی نظر میں اسے قتل کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے۔ اسالم اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ کسی بھی مذہب کے پیشواؤں کو برا بھال کہا جائے جس سے اس کے سبُّوا الَّذینَ یَدْعُونَ م ْن دُون َّ ّللا" 18اور پیروکاروں کی دل آزاری ہو چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہےَ :و َال ت َ ُ جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا بھالنہ کہنا " مطلب یہ ہے کہ مختلف مذاہب اور ان کے عقائد پر علمی تنقید کرنا ایک الگ چیز ہے ،لیکن کسی کی دل آزاری کے لیے کسی کو برا بھال کہنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اسالم کسی کی بھی عبادت گاہ سے چھیڑ چھاڑ کرنے اور نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ 5۔ اظہار رائے کی آزادی ایک دوسری چیز جسے آج کل کےمحاورے میں اظہاررائے کی آزادی)(Freedom of Expression کہا جا تا ہے۔اسالم اس کے لیے امر بالمعروف ونھی عن المنکر (نیکی کا حکم اور برائی سے منع) کی اصطالح استعمال کرتا ہے ،جس کا تصور اظہار رائے کے تصور سےبہت زیادہ بلند ہے۔ اسالم نہ صرف اسے ہر انسان کا حق بلکہ حق کے ساتھ فرض بھی قرار دیتا ہے۔ اسالمی تعلیمات کے مطابق ہر انسان کا نہ صرف یہ حق ہے بلکہ فرض بھی ہے کہ وہ بھالئی کی طرف بآلئے اور برائی سے روکے۔ نہ صرف اس قدر کہ نیکی کو نیکی اور برائی کو برائی کہے بلکہ نیکی کو پھیالنے اور برائی کی راہ روکنے کے لیے عملی طور پر جدوجہد بھی کرے۔ جو اسے اس بات سے روکتا ہے وہ نہ صرف اس سے اظہار رائے کی آزادی کا حق چھینتا ہے بلکہ اسے اس کا فرض ادا کرنے سے بھی روکتا ہے اور تعالی نے جس قوم میں حق و سچ کہنے کی جرات نہیں رہتی اسالم کی نظر میں وہ پسماندہ قوم ہے۔ ہللا ٰ بنی اسرائیل کی پستی کے جو اسباب بتائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو 19 ع ْن ُم ْن َك ٍر فَ َعلُوہُ برائی سے نہیں روکتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہےَ :كانُوا َال َیتَنَاھ َْونَ َ " (اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بالشبہ وہ برا کرتے تھے" مومنوں کی خوبی بیان کرتے ہوئے ہللا فرماتا ہے: ْ ْ َ 20 ُك ْنت ُ ْم َخی َْر أ ُ َّم ٍة أ ُ ْخر َج ْ عن ال ُمنكر "تم سب سے بہتر امت ہو،تمھیں ت للنَّاس ت َأ ْ ُم ُرونَ ب ْال َم ْع ُروف َوت َ ْن َھ ْونَ َ لوگوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے ،تم نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو " حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے: 21 من رائ منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف االیمان "تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے ،اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے ،اور اگر زبان سے بھی نہیں روک سکتا تو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے" حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ نے ایک موقعہ پر عورتوں کے مہر مقرر کرنے کی تجویز پیش کی ،آپ کا خیال تھا کہ چالیس اوقیہ (چارسودرہم)سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے ،اور یہ مہر عموما ً نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کا رہا ہے،اور آپ نے یہ بھی تجویز کیا کہ اگر کوئی زیادہ مہر دے گا تو وہ اس سے لے کر بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ اس پر ایک عورت 17 البقرہ191: 18 االنعام 108: المائدہ79: آل عمران110: صحیح مسلم:کتاب االیمان ،حدیث 177 19 20 21 اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل کھڑی ہوئی جس نے کہا":اے امیر المومنین! قرآن مجید نے تو عورتوں کو" کثیر مہر دینے کی بات کی ہے" َّو ٰات َ ْیت ُ ْم احْ ٰدى ُھ َّن ق ْن َ شیْـًٔاؕ " 22 ۰۰۲۰ ١اور تم نے اپنی کسی بیوی کو ڈھیر سارا ارا فَ َال تَا ْ ُخذُ ْوا م ْنهُ َ ط ً مال مہر میں دیا ہو" تو پھر آپ اس سے کس طرح روک سکتے ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ 23 اس سے اندازہ لگایا نے فرمایا :بے شک عورت صحیح کہہ رہی ہے میں نے غلط کہا " جاسکتا ہے کہ اسالم اظہار رائے کی کتنی قدر کرتا ہے۔ 6۔ مساوات کا حق تقوی اسالم کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔اگر کسی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو صرف ٰ اور ذاتی نیکو کاری کی بنیاد پر ۔باقی رنگ ،نسل ،زبان اور وطن کی بنیاد پر کسی کو کوئی فوقیت اس إنَّا َخلَ ْقنَا ُك ْم م ْن ذَ َك ٍر َوأ ُ ْنث َ ٰى َو َج َع ْلنَا ُك ْم اور برتری حاصل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :یَا أَیُّ َھا النَّ ُ ُ ارفُوا ۚ إ َّن أ َ ْك َر َم ُك ْم ع ْندَ َّ ّللا أَتْقَا ُك ْم "24لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے شعُوبًا َوقَبَائ َل لت َ َع َ پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرسکو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے" حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا :الفضل لعربی االبالتقوی۔" 25کسی عربی علی اسود وال السود علی احمر ٰ علی عجمی وال لعجمی علی عربی وال الحمر ٰ ٰ کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری حاصل ہے ،فضیلت اور برتری کا تقوی اور پرہیزگاری پر ہے" دارومدار صرف ٰ اسالم برہمن ،کھتری ،ویش اور شودر جیسی اونچ نیچ والی روایات کو نہیں مانتا ،جن میں کچھ انسانوں کو صرف ذات پات کی بنیاد پر دوسرے انسانوں پر اہمیت دی جاتی ہو ،اور نہ ہی اسالم رنگ و زبان یا عالقہ ووطن کی بنیاد پر کسی کی برتری کوتسلیم کرتا ہےکیونکہ یہ اسباب در اصل کسی کی برتری کا معیار نہیں۔ برتری کا معیار تو انسان کی کسبی چیز ہونی چاہیے جبکہ یہ چیزیں وہبی یا خداداد ہیں،ان میں انسان کے عمل وکسب کا کوئی عمل دخل نہیں،اس لیے ایسی بنیاد پر کسی کی برتری کو تسلیم کرنا غیر معقول بات ہے۔ -7معاشی تحفظ معنی میں کہ زمین میں اسی طرح اسالم سب انسانوں کو معاشی مساوات کا حق دیتا ہے ،اس ٰ موجود وسائل سب کے لیے یکساں ہیں ہرکسی کو حق حاصل ہے کہ وہ محنت وجدوجہد کر کے ان کو حاصل کرےچنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہےُ :ھ َو الَّذي َخلَقَ لَ ُك ْم َما في ْاْل َ ْرض َجمیعًا " 26ہللا وہی ہے مطلب یہ ہےکہ زمین میں جو معاشی و جس نے زمین کی تمام چیزیں تمھارے لیے پیدا کی ہیں" سائل پیدا کیے گئے ہیں ،مجموعی طور پر وہ سب تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں ۔ ہر ایک جدوجہد س نَصیبَكَ منَ الدُّ ْنیَا " 27اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھالئیے " کرکے اپنا حصہ خود حاصل کرے۔ َو َال ت َ ْن َ 28 سعَ ٰى سان إ َّال َما َ ْس ل ْْل ْن َ لیکن ہر ایک کو اتنا حصہ ملے گا جتنی اس نے جدوجہد کی ہوگی۔ َوأ َ ْن لَی َ "اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے" مطلب یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو یہ پیدائشی حق حاصل نہیں کہ وہ زمین کے وسائل پر قبضہ کر کے بیٹھ جائے ،اور دوسروں کو نزدیک ہی آنے نہ دے مثالً یہ کہ کسی بھی کاروبار پر اجارہ داری قائم کر لے کہ اس چیز کی صنعت صرف اس کی ہوگی،کوئی اور ایسی صنعت نہیں لگا سکتا ،یا 22 23 24 25 26 27 28 سورہ نساء۔آیت 20 عبد الرزاق ،المصنف،ج ،6ص ،180حدیث 10420 الحجرات13: مسند احمد بن حنبل ،حدیث ،22978بروایۃ ابی نضرة۔ وصححہ االلبانی فی الصحیحہ 199/6 البقرہ29: القصص77: النجم 39: اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل اس روٹ پر ٹرانسپورٹ صرف اس کی چلے گی،کسی اور کی نہیں چلے گی،یا کسی خاص چیز کا کاروبار صرف وہ کرے گا ،کوئی اور نہیں کر ے گا وغیرہ۔ بلکہ اسالمی تعلیمات کے مطابق زمین کے سارے وسائل سب انسانوں کے لیے برابر ہیں۔ ہر کسی کو آزادی اور اختیار حاصل ہے کہ جائز کاروبار میں سے جوبھی چاہے کرے اور زمین میں موجود معاشی وسائل میں سے جو چاہے جدوجہد کر کے خود حاصل کرے۔ لیکن جو جدوجہد کے الئق نہیں ہیں تو خوشحال لوگوں کی ملکیت میں ان کا حق رکھا گیا ہےَ :وفي سائل َو ْال َمحْ ُروم" 29اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق أ َ ْم َوالھ ْم َح ٌّق لل َّ ضوا َّ سنًا " 30اور خدا کو قرض حسنہ (اچھا اور خلوص نیت سے قرض) دیتے ّللاَ قَ ْر ً ہے" َوأ َ ْقر ُ ضا َح َ زکوة ،صدقات اور خیرات کی صورت میں جو مال مسکینوں کو دیا جاتا رہو" اس سے ظاہر ہے کہ ٰ تعالی کو قرض دیا جاتا ہے وہ ان پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے ،جو انہیں ادا کیا جاتا ہے۔ یا وہ ہللا ٰ ہے ،جس کا دینے والے کو یقینی طور پر فائد ہ ہوگا۔ اگر اس کے باوجود بھی کچھ مسکین رہ جائیں تو ان کی کفالت اسالمی ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ نبی اکرم ؐ نے فرمایا :من ترک ماال فللورثۃ ومن ترک کال فالینا " 31جو مال چھوڑ کر جاتا ہے تو وہ اس کے ورثہ کا حق ہے ،لیکن جو ذمہ داریاں چھوڑ کر جاتا ہے وہ ہمارے (یعنی حکومت کے) ذمہ ہے" اسالمی نقطہ نظر سے ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے باشندوں کو برابری کی بنیاد پر معاشی وسائل حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے۔ 8۔ اہلیت کی بنیاد پر مواقع حاصل کرنے کا حق اسالم ہر شہری کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ ریاست کی فالح و بہبود میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس سلسلے میں اسالم اقربا پروری اور ناجائز سفارش کو قطعا ً برداشت نہیں کرتا ،خاص طور پر سرکاری عہدوں کو اسالم حکمرانوں یا بااختیار لوگوں کے پاس امانت قرار دیتا ہے اور انہیں سختی سے حکم دیتا ہے کہ وہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کریں چنانچہ قرآن مجیدمیں ارشاد ہے :إ َّن َّ ّللاَ ّللاَ نع َّما َیع ُ ظ ُك ْم به إ َّن َّ َیأ ْ ُم ُر ُك ْم أ َ ْن ت ُ َؤدُّوا ْاْل َ َمانَات إلَ ٰى أ َ ْھل َھا َوإذَا َح َك ْمت ُ ْم َبیْنَ النَّاس أ َ ْن تَحْ ُك ُموا ب ْال َعدْل ۚ إ َّن َّ ّللاَ 32 یرا سمیعًا َبص ً َكانَ َ "خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کے حوالے کیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔خدا تمہیں بہت اچھی نصیحت کرتا ہے ،بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے" حضور کے بہت قریبی ساتھی تھے او ر ذاتی طور پر حضرت ابو ذر غفاری رضی ہللا عنہ جو ؐ آپ آپ سے گورنری کے عہدے کے لیے درخواست کرتے ہیں تو ؐ نہایت شریف النفس انسان تھے ،جب ؐ انہیں اس عہدے کے لیے نا اہل سمجھتے ہوئے یہ کہہ کر معذرت کرتے ہیں کہ:یا ابا ذر انک ضعیف وانھا امانۃ وانھا یوم القیمۃ خزی وندامۃ االمن اخذھا بحقہا وادی الذی علیہ فیھا" 33اے ابو ذر ! تم(اس عہدے کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لحاظ سے) کمزور ہو ،اور یہ عہدہ میرے پاس امانت ہے ،اور یہ قیامت کے دن خواری اور پشیمانی کا باعث بنےگا سواے اس شخص کے جس نے اسے اہلیت کی بنیاد پر حاصل کیا اور اس کی تمام ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھایا" آپ سرکاری وسائل کو بھی امانت سمجھتے تھے ،وہ بھی اہلیت کی بنیاد پر ہی اسی طرح ؐ آپ کی پیاری بیٹی حضرت لوگوں کے حوالے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیت المال میں کچھ غالم آئے تو ؐ 29 30 31 32 33 الذاریات19: المزمل20: صحیح مسلم ،کتاب الفرائض،باب من ترک ماال فلورثتہ ،حدیث 4161 النساء58: صحیح مسلم ،کتاب االمارہ،باب کراہۃ االمارہ بغیر ضرورة ،حدیث 1825 اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل آپ نے یہ کہہ کر معذرت کرلی فاطمہ الزھرا رضی ہللا عنہا نے ایک غالم کے لیے درخواست کی تو ؐ 34 کہ "تم سے زیادہ اہل صفہ اس کے مستحق ہیں" 9۔ انصاف حاصل کرنے یا قانونی مساوات کا حق اسالمی تعلیمات کے مطابق لوگ نہ صرف پیدائشی طور پر برابر ہیں بلکہ انصاف اور قانون کی نظر میں بھی برابر ہیں۔ مسلمان اور غیر مسلم ،دوست اور دشمن ،اپنے اور پرائے کے فرق کے بغیر سب کو برابری کی بنیاد پر انصاف ملنا چاہیے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: علَ ٰى أ َ ْنفُس ُك ْم أَو ْال َوالدَ ْین َو ْاْل َ ْق َربینَ ۚ إ ْن یَ ُك ْن غَنیًّا أ ْوَ یَا أَیُّ َھا الَّذینَ آ َمنُوا ُكونُوا قَ َّوامینَ ب ْالقسْط ُ ش َھدَا َء َّّلِل َولَ ْو َ ضوا فَإ َّن َّ یرا فَ َّ یرا۔35 اّلِلُ أ َ ْولَ ٰى بھ َما ۖ فَ َال تَتَّبعُوا ْال َھ َو ٰى أ َ ْن ت َ ْعدلُوا ۚ َوإ ْن ت َْل ُووا أ َ ْو ت ُ ْعر ُ ّللاَ َكانَ ب َما ت َ ْع َملُونَ خَب ً فَق ً "اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے(یعنی صاف صاف شہادت نہیں دوگے) یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے" َ َ ُ ُ ْ َّ شن ُ ب للت َّ ْق َو ٰى ۖ َواتَّقُوا ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے َ :و َال یَجْ ر َمنَّ ُك ْم َ علَ ٰى أال ت َ ْعدلوا ۚ اعْدلوا ُھ َو أق َر ُ َآن قَ ْو ٍم َ 36 ّللاَ ۚ إ َّن َّ َّ یر ب َما ت َ ْع َملُونَ ّللاَ خَب ٌ " اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار آپ نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے ہے" فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کی ،چوری ثابت ہونے پر ؐ اکرم کو کا حکم دیا ۔ صحابہ کرام رضی ہللا عنھم نے حضرت اسامہ بن زید کے واسطے سے نبی ؐ آپ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سفارش کروائی کہ اس عورت کا ہاتھ نہ کاٹاجائےؐ ، فرمایا:تم سے پہلے لوگ بھی اسی وجہ سے ہالک ہوئے کہ جب کوئی معمولی شخص چوری کرتا تھا تو اسے سزا دیتے تھے لیکن جب کوئی با اثر شخص چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔ (لیکن آپ نے اپنے فیصلہ پر اٹل رہنے کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا :وایم ہللا لو میں ایسا نہیں کروں گا)،پھر ؐ 37 محمد بھی چوری کرتی تو میں ان فاطمۃ بنت محمد ؐ سرقت لقطعت یدھا "خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت ؐ اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا " 10۔ ریاستی معامالت میں شرکت کا حق اسالم کسی بھی خاندانی ،نسلی یا گروہی ریاست کا قائل نہیں ہے۔ اسالم کی نظر میں ہر مسلمان خدا کا نائب ہے اورریاستی معامالت میں شریک ہونے کا پورا پورا حق رکھتا ہے ،اور اپنی صالحیتوں کی بنیاد پر مشاورتی مجلس کا رکن بن سکتا ہے ،چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہےَ :وشَاو ْر ُھ ْم في ْاْل َ ْمر"38اور ریاستی واجتماعی معامالت میں ان سے مشورہ لیا کرو" پھر مسلمانوں کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایاَ :وأ َ ْم ُر ُھ ْم ُ ور ٰى بَ ْینَ ُھ ْم " 39اوروہ اپنے کام ش َ آپس کے مشورے سے کرتے ہیں" اس سے ظاہر ہے کہ مجلس مشاورت( پارلیمینٹ کے ممبران) لوگوں کی آزادانہ رائے سے منتخب کیے جائیں گے۔ لوگوں کو اور ان کے نمائندوں کو تنقید ،اختالف اور اظہار رائے کی آزادی کا حق ہوگا اور عوام کو یہ حق حاصل ہوگا کہ جسے چاہیں اسے اپنا حکمران منتخب کریں اور جسے چاہیں 34 35 36 37 38 39 مسند احمد ج،2ص،202-203حدیث 838 النساء135: المائدہ8: خطیب تبریزی ،مشکوة المصابیح 134/2 آل عمران159 : الشوری38: ٰ اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل اسےعہدے سے ہٹادیں۔ اسالم کی مندرجہ باال تعلیمات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسالم نے انسان کو جو حقوق دیے ہیں وہ دنیا کے کسی بھی مذہب یا قانون نے نہیں دیے۔ اسالمیات ت اوالد تربی ِ باب سوم :معروضی مسائل اسالم نے انسانی زندگی کے لیے ایک معتدل فکر و عمل کا نظام دیا ہے۔ اسالمی تعلیمات میں جہاں والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی نافرمانی سے سختی سے روکا گیا ہے اور ان سے نیک سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے ،وہاں اوالد کے حقوق کو بھی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے اور ان کی ادائگی کی تاکید کی گئی ہے ۔ اسالم کی سماجی زندگی یک رخی نہیں ہے ،بلکہ ہمہ گیر ہے۔ والدین اگر اسالمی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں تو اوالد اس اکائی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں مل کر معاشرے کی تصویر بناتے ہیں۔ آج کے بچے کل کے والدین اور بزرگ ہوں گے ،اس لیے اسالم بچوں کے بارے میں خصوصی ہدایات دیتا ہے۔ اسالم جہاں بچوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ بڑوں کا ادب ،احترام اور فرمانبرداری کریں ،وہاں بڑوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ چھوٹوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں۔ اور ان کے لیے ایثار اور قربانی سے کام لیں۔ حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا آپ نے فرمایا:لیس منا من لم یرحم صغیر نا ولم یوقر کبیر نا۔ " 40جو ہمارے عنہ سے روایت ہے کہ ؐ چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب و احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے" اسالم و الدین کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ وہ بچوں کی پرورش پر توجہ دیں ۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کریں ،ان کی غذا کا خیال رکھیں ،انہیں گرمی اور سردی سے محفوظ رکھیں، بیماریوں سے بچاؤ کا انتظام کریں اور یہ سب کچھ ان کے فرائض میں داخل ہے۔ والدین کی غفلت کی وجہ سے بچے سخت جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچے ابتدائی عمر میں انتہائی توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ،والدین کی الپرواہی کی وجہ سے کتنی ہی نفسیاتی اور روحانی بیماریوں میں مبتال ہوجاتے ہیں۔ پرورش کے سلسلے میں خوراک ،لباس ،صاف ستھرا ماحول ،محبت اور شفقت کا رویہ سب شامل ہیں۔ جس طرح جسمانی صحت او ر نشونما کے لیے پرورش بچوں کا حق ہے ،اسی طرح ان کی ذہنی اور روحانی نشونما اور بالیدگی کے لیے تربیت بھی ان کا حق ہے۔ پرورش کا تعلق جسمانی بالیدگی سے ہوتا ہے تو تربیت کا تعلق ان کی ذہنی نشونما اور افزائش سے ہوتا ہے۔ والدین جس طرح اوالد کے لیے جسمانی آسودگی اور مادی آسائش کا انتظام کرتے ہیں ،اسی طرح ذہنی اور روحانی آسائش اور سکون فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ بچے کی متوازن شخصیت کی نشونما کے لیے ذہنی اور روحانی سہولتیں بے حد ضروری ہیں۔ تربیت کےسلسلے میں سب سےزیاد اہم دو چیزیں ہیں۔ ایک تعلیم اور دوسری زندگی کے آداب اور طور طریقے ۔ تعلیم تعلیم انسانی شخصیت کے لیے زیور ہے۔ بچے کی شخصیت کی نشونما کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے۔ تعلیم انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی قوت بڑھاتی ہے۔تعلیم انسان میں تہذیب او شائستگی پیدا کرتی ہے۔ تعلیم اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ تعلیم انسان میں یہ صالحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ زمانے کو ،زمانے کے حاالت کو اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھے۔تعلیم انسان کو اس الئق بناتی ہے کہ وہ زمانے کے بدلتے ہوئے حاالت کا سامنا کر سکے اور ہر دور میں عزت بھری زندگی گزار سکے اور تعلیم انسان کو سماج کے لیے ایک کار آمد انسان اور اچھا شہری بناتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم" 41علم حاصل کرنا ہر مسلمان(مرد و عورت) پر فرض ہے" آپ ﷺ نےاپنے چچا زاد بھائی حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنھما کے حق میں دعا مانگتے ہوئے فرمایا :اللھم فقھہ فی الدین۔ " 42اے ہللا ! اسے دین کا علم اور سمجھ عطا کر" 40 41 42 جامع ترمذی ،ابواب البر والصلہ ،حدیث 1919 سنن ابن ماجہ ،باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم ،حدیث 224 ابن حجر عسقالنی،فتح الباری ،170/1 ،ذھبی شمس الدین،سیر اعالم النبالء 337/3، اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل بچوں کی تعلیم کا نبی اکرم ؐ کو کتنا خیال تھا ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر میں مشرکین مکہ جو قید ہو کر آئے تھے ،ان میں سے جن کے پاس فدیے کے پیسے نہیں تھے، 43 ان کا فدیہ نبی اکرم ؐ نے یہ مقرر فرمایا کہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو تو تم آزا د ہو" آپ نے تعلیم پر انسان کا نہ صرف حق قرار دیا ،بلکہ نبی اکرم ؐ کا انسانیت پر یہ عظیم احسان ہے کہ ؐ اس سے بڑھ کر تعلیم کو فرض قرار دیا ہے ،جب کہ اسالم سے پہلے مختلف مذاہب اور سماجوں نے تعلیم کو ایک مخصوص طبقے کا حق قرار دیا تھا۔ تعلیم کے سلسلے میں اسالم یہ ہدایت دیتا ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ہر وہ علم حاصل کرو جو دنیاوی زندگی میں کام آئے ۔ امام غزالی ؒ نے میییکل ،سائنس ،انجینئرنگ ،ایگریکلچر،ریاضی اور ہر وہ علم جس کی طرف انسان اپنی زندگی میں محتاج ہوتا ہے ،اسے سماج کا یکساں فرض (فرض کفایہ) قرار دیا ہے۔ 44مطلب کہ اسالمی ریاست میں ہر اس شعبے میں اتنے اسپیشلسٹ ہونے چاہییں جو اپنے سماج کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ نے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ تیرنے ،تیر چالنے ،اور گھڑسواری سکھانے کا حکم دیا ۔ آج اگر حضرت عمر رضی ہللا عنہ ہوتے تو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرنے کا حکم دیتے 45اس لیے والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو قرآن ،حدیث اور عقائد کی تعلیم کےساتھ مروجہ سائنس ،عمرانیات اور جدید صنعت وٹیکناالجی کی تعلیم بھی دلوائیں تاکہ وہ زمانے کو سمجھ بھی سکیں تو کوئی جائز اور حالل روزی کا ذریعہ اختیار کرکے عزت بھری زندگی بھی گزار سکیں اور سماج کے لیے کارآمد فرد اور اچھے شہری بن سکیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسالم کے پیغام کو دنیا جہان تک پہنچآئے اور یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب زمانے کے حاالت کے مطابق انسان کے پاس تعلیم ہو تاکہ لوگوں کو ان کی زبان میں اور ان کے طرز استدالل کے مطابق سمجھایا جا سکے۔ امام غزالی نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ بچوں کو علم پڑھاؤ یا فنی تعلیم دلواؤ تاکہ وہ آگے چل کر عزت بھرے طریقے سے روزی کما کر زندگی گزار سکیں ،دوسری صورت میں بچے بڑے ہوکر یا تو چور اور ڈاکو بنیں گے ،یا پھر بھیک مانگیں گے۔اور یہ دونوں چیزیں ایک گرے 46 ہوئے معاشرے کی نشانیاں ہیں۔ آداب سکھانا تعلیم کے ساتھ جو چیز بے انتہا ضروری ہے وہ ہے اسالمی آداب سکھانا۔ بچے کو نظم و ضبط اعلی اخالق پیدا کرنا والدین کا فرض ہے ۔ نبی اکرم ؐ نے فرمایا :الن سکھانا ،اس میں اچھی عادتیں اور ٰ 47 یؤدب احدکم ولدہ خیر لہ من ان یتصدق بصاع "تم میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو (روزانہ) ایک ادب سکھائے یہ اس کے لیے اس سے بہترہے کہ روزانہ ایک صاع (گندم) صدقہ کرے" ایک دوسری روایت میں آپ کا ارشاد ہے :مانحل والدولدہ من افضل من ادب حسن" 48کسی باپ نے اپنے بیٹے کو "اچھے ادب "سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا" یعنی اوال دکو اچھے اخالق سکھانا دنیا کے مال و اسباب دینے سے بہتر ہے۔ اس لیے والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو اسالمی طریقے سے کھانے ،پینے ،لباس پہننے ،بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں سے پیار اور محبت سے پیش آنے ،مجلس کے آداب اکرم کے سوتیلے فرزند تھے) اور گفتگو کے آداب وغیرہ سکھائیں۔حضرت عمر بن ابو سلمہ (جو نبی ؐ سے روایت ہے کہ" :جب میں چھوٹا تھا اور حضور ؐ کی زیر پرورش تھا ان دنوں کی بات ہے کہ ایک دن کھانا کھاتے ہوئے میر ا ہاتھ برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا ،یعنی کبھی برتن کے ایک طرف 43 44 45 46 47 48 سنن ابن ماجہ ،مقدمہ ،حدیث ،20خالد علوی ،اسالم کا معاشرتی نظام ،ص235 غزالی محمدم بن محمد ،احیاء علوم الدین،دار الکتب العلمیہ ،بیروت لبنان2012،ع طبع ششم30/1 ، خالد علوی ،اسالم کا معاشرتی نظام ،ص236 غزالی ،احیاء علوم الدین،کتاب العلم جامع ترمذی ،ابواب البر،باب ماجاء فی ادب الولد،حدیث 1951 ایضا ،حدیث 1952 اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل آپ نے سے کھا رہا تھا تو کبھی دوسری طرف سے ،جب حضور ؐ نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو ؐ فرمایا :بیٹا ! کھانا کھاتے وقت بسم ہللا پڑھو اور سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور برتن کا جو حصہ تمہارے سامنے ہو وہاں سے کھاؤ ( ادھر ادھر سے نوالہ اٹھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے) 49اس سے اندازہ لگایا آپ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر ان پر تنبیہ کرتے تھے اور صحیح ادب جاسکتا ہے کہ ؐ سکھاتے تھے۔ دراصل بچہ خاندان کی تہذیب اور شائستگی کی عکاسی کرتا ہے اور کسی بھی خاندان کا بچہ ان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اگر بچوں کو صحیح ادب نہیں سکھایا جائے گا ،تو دوسرے لوگ دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ یہ خاندان کتنا غیر مہذب اور غیر شائستہ ہے۔ اگر پورے سماج کے بچے ایسے ہوں تو اس سے پورے سماج کی تہذیب اور شائستگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ چونکہ بچے خاندان کا اور خاندان سماج کا حصہ ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی اخالقی تربیت کی جائے تا کہ وہ ایک اچھے سماج کے سفیر بن کر سامنے آئیں۔ اسی طرح بچوں کو حالل و حرام ،جائز ناجائز کی تمیز سکھانا بھی والدین کا فرض ہے۔ ایک دفعہ حضور ؐ نے حضرت حسن رضی ہللا عنہ کو صدقے کی آپ نے کھجور کا دانا ،ان کھجور کھاتے ہوئے دیکھ کر فرمایا" :کخ کخ یعنی اس کھجور کو باہر نکالوؐ ، کے منہ سے نکلواکر انہیں سمجھایا کہ بیٹا یہ صدقہ کی کھجور ہے اور صدقہ کی چیز ہمارےلیے حالل 50 نہیں ہے" یہ ہمارے لیے تعلیم ہے کہ ہر وہ چیز جو شرعی یا اخالقی طور پر ہمارے لیے جائز نہیں ہے ،اس سے اپنے بچوں کو دور رکھا جائے اور بچوں میں حالل وحرام کی تمیز پیدا کی جائے۔ اسی طرح نماز اور روزے کی پابندی یا دوسرے اسالمی احکام کے بارے میں بھی اپنے بچوں کو عملی طور پر تربیت دی جائے تاکہ یہ آداب ان کے دل و دماغ میں بیٹھ جائیں ۔ اور یہ سب باتیں بچوں کو عزت اور شفقت بھرے انداز میں سکھائی جائیں تاکہ بچے اپنی تذلیل محسوس نہ کریں جیسے نبی اکرم ؐ نے فرمایا:اکرموا اوالدکم و احسنوا بھم" 51اپنی اوالد کی عز ت کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ " اسالم بچوں کی تعلیم و تربیت کو نہ صرف فرض بلکہ ثواب کا عمل تصور کرتا ہے ،اور آخرت کی نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہے ،جب کہ غیر ذمہ دارارنہ رویے کی صورت میں والدین کو گناہ گار تصور کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔اچھے افراد جو تعلیم اور تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گے وہ معاشرے کو جنت بنائیں گے اور وہ ایسا سماج بنائیں گے جس میں سب لوگ پر امن اورخوشحال زندگی بسر کریں گے۔ اس کے مقابلے میں غیر مہذب اور ناتربیت یافتہ افراد کے نتیجے میں غیر مہذب معاشرہ وجود میں آئے گا ،جو بگاڑ اور فساد کا سبب بنے گا ،اس لیے اسالم اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر زور دیتا ہے۔ ویسے تو بچوں کی اچھی پرورش ،تعلیم اور تربیت پر ہرمذہب اور معاشرہ زور دیتا ہے ،لیکن اسالم کی خصوصیت یہ ہےکہ دوسرے مذاہب یا معاشرے بچے کے وجود میں آنے کے بعد اس کی پرورش ،تعلیم اور تربیت کے بارے می ں سوچتے ہیں ،جب کہ اسالم بچے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچتا ہے اور مرد وعورت کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنی نسل کے لیے اچھے یا اچھی شریک حیات کا انتخاب کرو اور پھر اچھے اور برے شریک حیات کا معیار بھی بتا دیا،چنانچہ نبی اکرم ؐ فرماتے ہیں ":عام طور پر چار چیزوں کی وجہ سے عورت سے شادی کی جاتی ہے1:۔مال کی وجہ سے2،۔حسن و جمال کی وجہ سے3،۔حسب و نسب کی وجہ سے4،۔دینداری ،اچھے اخالق اور اچھے کردار کی وجہ سے۔ (اگر ساری خوبیوں والی عورت مل جائے تو غنیمت ہے ،ورنہ) دیندار ،اچھے 49 50 51 صحیح بخاری،کتاب االطعمہ،باب التسمیہ علی الطعام۔۔۔ حدیث5376 الزکوة،باب ما یذکر فی الصدقہ للنبی وآلہ،حدیث 1491 صحیح بخاری،کتاب ٰ سنن ابن ماجہ ،کتاب االدب،باب برالولد۔۔۔ حدیث 3871 باب سوم :معروضی مسائل اسالمیات اخالق اور اچھے کردار کی مالکہ عورت کو ترجیح دینا " وجہ ظاہر ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے ،اس لیے اگر ماں دیندار ،با اخالق اور باکردار ہوگی تو بچے پر بھی اچھا اثر پڑے گا ،ورنہ جیسے کوےویسی اوالد۔اسی طرح عورت کو بھی یہ سوچنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کیسا باپ منتخب کر رہی ہے۔ 52 52 صحیح بخاری ،کتاب النکاح،باب االکفاء فی الدین ،حدیث 5090 اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل خدمت ِخلق خدمت خلق کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی غرض یا بدلے کے اور بغیر کسی اللچ کے خلق خداکی مددکرنا؛ کسی کی جان بچانا،کسی کا عالج کرانا،کسی زخمی کو ہسپتال تک پہنچانا،بھوکے کو کھانا کھالنا،پیاسے کو پانی پالنا،گمراہ کو راہ دکھانا،بیمار کی بیمارپرسی کرنا ،یا تیمارداری کرنا ،بے علم کو علم سکھانا،کسی کو اچھا مشورہ دینا،کسی بے روزگار کو جائز روزگار سے لگانا،یتیموں،بیواؤں ،اور حاجتمندوں کی حاجت روائی کرنا،مہمانوں کی مہمانداری کرنا،یہ سب خدمت خلق کی مختلف صورتیں ہیں۔جو شخص بنا کسی غرض وطمع کے نیک نیتی سے خدا کی مخلوق کی کسی بھی صورت میں مدد کرتا ہے اس کی اس مدد کو خدمت خلق کہا جاتا ہے۔ خدمت ِ خلق کا دائرہ خدمت خلق کا دائرہ بہت وسیع ہے ،اس میں انسان اور حیوان سب شامل ہیں۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم ،اپنے اور پرائے ،دوست اور دشمن کا کوئی بھی فرق نہیں ہوتا ہے۔ خدمت خلق کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بنا کسی فرق کے خلق خدا کی خدمت کی جائے اور ہر وقت کی جائے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:الخلق عیال ہللا فاحب الخلق الی ہللا من احسن الی عیالہ " 53تمام مخلوق ہللا کا کنبہ ہے،تو ہللا کو اپنی خلق سے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے عیال کے ساتھ حسن سلوک کرے" ایک روایت میں آپﷺفرمایا :فی کل ذات کبد رطبۃ صدقۃ" 54ہر جاندار چیز کی خدمت کرنا ثواب ہے" خدمت خلق کی اہمیت اس وقت دنیا میں لو اور دو( )Give and Takeواال اصول عوام الناس کی فطرت کا الزمی حصہ بن چکا ہے ۔ کوئی شخص کسی دوسرے شخص سےاچھا سلوک کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے بدلے میں کیا ملے گا؟ جب تک یہ امید نہ ہو تب تک نہ کوئی قدم نیکی کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ خود غرضی اور نفس پرستی کے اس جذبے کے برعکس دین اسالم انسان میں یہ روح پیدا کرنا چاہتا ہے کہ ذاتی مفاد سے بلند تر ہوکر انسانیت کی خدمت کی جائے۔ اصل میں یہی انسانیت ہے ،یہی اخوت ہے اور یہی خدمت خلق ہے۔ یہی عمل دنیا میں نیک نامی کا باعث ہے تو آخرت میں ہللا کی رضا اور بندے کی مقبولیت کا سبب ہے ۔ قرآن مجید میں مومنوں کی تعالی نے فرمایا: خصوصی صفت کو بیان کرتے ہوئے ہللا ٰ ٰ 55 صةٌ ۚ َو َم ْن یُوقَ ُ ش َّح نَ ْفسه فَأُولَئكَ ُھ ُم ْال ُم ْفل ُحونَ " اور وہ دوسروں َویُؤْ ث ُرونَ َ صا َ علَ ٰى أ َ ْنفُسھ ْم َولَ ْو َكانَ بھ ْم َخ َ کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں خواہ ان کو خود حاجت ہی ہو۔ اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں" 56 َوی ْ ُطع ُمونَ َّ یرا علَ ٰى ُحبه مسْكینًا َویَتی ًما َوأَس ً ام َ الطعَ َ "اور باوجود یکہ ان کو خود کھانے کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھالتے ہیں" مطلب کہ مومن کسی سے بھالئی کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ بدلے میں انہیں کیا ملے گا۔ وہ تو صرف خدا کی رضا کی خاطر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اسالم کی نظر میں خدمت کا بدلہ لینا تو کیا صرف اس کو اپنی بھالئی اور احسان کہنا بھی اس کے اجر کو ضائع کردیتا ہے: ٰۤ ْ َ اّلِل َو الیَ ْوم ي یُ ْنف ُق َمالَهٗ رئَا ٓ َء النَّاس َو ال یُؤْ م ُن ب ّٰ صدَ ٰقت ُك ْم ب ْال َمن َو ْاالَ ٰذىَۙ ١كالَّذ ْ ٰیاَیُّ َھا الَّذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال تُبْطلُ ْوا َ ْٰ االخرؕ" 57 ١مومنو! اپنے صدقات (وخیرات)احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد مشکوة المصابیح 425 /2 53خطیب تبریزی، ٰ 54صحیح بخاری ،کتاب االدب ،باب رحمۃ الناس والبہائم ،ح 6008 55الحشر 9: 56الدھر 8: 57البقرہ 264 : اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل نہ کردینا ،جو لوگوں کو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا" خدمت ِخلق کے بارے میں احادیث تعالی اپنے ایک بندے سے فرمائے گا:اے میرے 1۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا":قیامت کے دن ہللا ٰ بندے میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھالیا ،میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پالیا ،میں بیمار تھا تو نے میری تیمارداری نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار! آپ تو ان سب باتوں تعالی فرمائے گا:میرا فالں بندہ پیاسا تھا ،تو سے پاک ہیں۔ آپ کو بھوک اور پیاس کی کیسی حاجت؟ ہللا ٰ نے اسے پانی نہ پالیا ،گویا کہ تونے مجھے پانی نہ پالیا ،میرا فالں بندہ بھوکا تھا ،تو نے اسے کھانا نہ کھالیا ،گو یا مجھے کھانا نہ کھالیا ،میرافالں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی تیما ردای نہ کی گو یا کہ تو نے میری تیمارداری نہ کی ،میرا فالں بندہ محتاج تھا تو نے اس کی حاجت پوری نہ کی گویا کہ تو تعالی فرشتوں کو حکم دیں گے جو اس کو دوزخ میں جا کر نے میری حاجت پوری نہ کی۔ اس وقت ہللا ٰ 58 ڈالیں گے۔ آپ نے فرمایا: 2۔ ایک موقعے پر خدمت خلق کے جذبے کو ابھارتے ہوئے ؐ "تم مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے ،محبت کرنے اور شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے ،جب جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے 59 خوابی اور بخار میں مبتال ہوجاتا ہے" تعالی قیامت کے دن اس 3۔ آپ ﷺ نے فرمایا :جو شخص مسلمان کی کسی تکلیف کو دور کرے گا تو ہللا ٰ تعالی کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا ،ہللا ٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا ،اور جو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا ،تو تعالی اس کی دنیا و آخرت میں سترپوشی کرے گا اور ہللا اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب ہللا ٰ 60 تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے" 4۔ آپ ﷺ نے فرمایا :جس نے ہللا کی راہ میں جہاد کرنے والے کو سامان فراہم کیا گو یا کہ اس نے جہاد 61 کیا اور جس نے مجاہد کے گھر والوں کی دیکھ بھال کی تو گو یا وہ بھی جہاد میں شریک ہوا" آپ نے نہ صرف خدمت خلق کی ترغیب دی بلکہ آپ ؐ عملی طور پر خود خدمت خلق میں مصروف ؐ 5 رہتے تھے ،یہی سبب تھا کہ آپ ؐ نے پہلی وحی نازل ہونے کے بعد جب بی بی خدیجہ رضی ہللا عنہا آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: سے اس کا ذکر کیا اور اپنی گھبراہٹ کا اظہار کیا تو بی بی صاحبہ نے ؐ كال أبشر فوہللا ال یخزیك ہللا أبدا وہللا إنك لتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضیف وتعین على نوائب الحق"62آپ ؐ کو ہر گز نہیں گھبرانا چاہیے ،آپ خوش رہیں ،خدا کی قسم! ہللا آپ کوکبھی اکیال نہیں چھوڑے گا۔ خدا کی قسم ! آپ رشتے جوڑتے ہیں ،آپ سچ بولتے ہیں، حاجتمندوں کی حاجت پوری کرتے ہیں ،غریبوں کی مالی مدد کرتے ہیں ،آپ مہمان نواز ہیں ،آپ حق کے معاملے میں لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں (بھال ایسی خدمت خلق کرنے والے شخص کو ہللا تعالی کیسے اکیال چھوڑیں گے؟) ٰ آپ نے ان تھا۔ نہ کچھ پاس کے ان لیے کے ولیمے لیکن کی شادی نے عنہ ہللا رضی صحابی ایک 7۔ ؐ سے فرمایا :عائشہ رضی ہللا عنہا کے پاس جاؤ اور اس سے آٹے کی تھیلی مانگ کر لے آؤ ،وہ صحابی رضی ہللا عنہ گئے اور وہ آٹے کی تھیلی لے آئے ،حاالنکہ نبوی گھرانے میں اس آٹے کے 58 59 60 61 62 صحیح مسلم ح نمبر 6565 صحیح البخاری ،باب رحمۃ الناس والبھائم ،ح 6011 مشکوة المصابیح :کتاب العلم 32 /1بحوالہ مسلم ٰ سنن ابی داؤ ،باب الجھاد ،ح نمبر 2509 صحیح البخاری ،تفسیر العلق ح نمبر 4953 اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل سواشام کو کھانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا" آپ کے نزدیک خدمت خلق کے حوالے سے اپنے اور پرائے ،دوست اور دشمن کے درمیان کوئی 8۔ ؐ آپ بے تاب ہوجاتے تھے۔ جب تک اس فرق نہیں تھا ،جب بھی کسی کو تکلیف میں دیکھتے تھے تو ؐ آپ کو آرام نہیں آتا تھا۔ مکہ کے مشرکین کی دشمنی کی سب کو خبر ہے ،لیکن کی مدد نہ کرتے تھے ؐ آپ نے مکہ کے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کےلیے آپ کی ہجرت کے بعد جب وہاں قحط پڑا تو ؐ ؐ 64 پانچ سو دینار اکٹھے کر کے بھیج دیے۔ آپ نے فرمایا :بیوہ عورتوں اور مسکینوں کی مدد کے لیے کوشش کرنے واال 9۔ ایک روایت میں ؐ ایسا ہے جیسے ہللا کی راہ میں جہاد کرنے واال یا ساری رات عبادت کرنے اور سارا دن روزہ 65 رکھنے واال" 10۔ جس شخص نے ہللا کی رضا کے لیے یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا ،تو اسے اتنی نیکیاں ملیں گیں جتنے اس کے سر کے بال اس کے ہاتھ کےنیچے آئیں گے ،جس شخص نے یتیم بچی یا لڑکی سے اچھا سلوک کیا تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ساتھ ہیں 66 آپ نے شہادت اور بیچ والی انگلی کو مال کر دکھایا" ۔اس وقت ؐ مطلب کہ ہر مستحق کی مدد کرنی چاہیے خاص طور پر ان کی جو زیادہ حاجتمند ہیں ،جیسے بیوہ عورتیں ،یتیم بچے اور مسکین عیالدار ،یہ مدد کے زیادہ مستحق ہیں ،اس لیے ترجیحی بنیادوں پر ان کی مدد کرنی چاہیے۔اور خلق خدا کی دل آزاری سے بچنا چاہیے۔ خدمت خلق کے حوالے سے صوفیاء کے اقوال خدمت خلق کے حوالے سے شیخ سعدی فرماتے ہیں :دل بدست آور کہ حج اکبری است" لوگوں کو فائدہ پہنچا کر ان کے دل خوش کرو کہ یہ حج اکبری ہے" طریقت بجز خدمت خلق نیست۔۔۔۔ بتسبیح وسجادہ ودلق نیست " طریقت خدمت خلق کے عالوہ اور کسی چیز کا نام نہیں،تسبیح،وجائے نماز وگدڑی کا نام نہیں" حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں":قیامت کے بازار میں کوئی اسباب اس قدر قیمتی نہ ہوگا جس قدر دلوں کو راحت پہنچانا" حافظ شیرازی کہتے ہیں :مباش درپئے آزار وہرچہ خواہی کن۔کہ در طریقت ما بیش ازیں گناہ نیست " خلق خدا کی اذیت کے در پلیے مت پڑو ،باقی جو چاہو کرو،کیونکہ ہماری شریعت میں خلق آزاری سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں" ۔۔۔۔ کہ ہے ساری مخلوق کنبہ موالنا الطاف حسین حالی نے کہا تھا :یہ پہال سبق تھا کتاب ہدی کا 67 خدا کا 63 جانوروں پر رحم اسالم نے نہ صرف انسانوں کے حقوق بتائے اور ان کی خدمت کا درس دیا ہے بلکہ اس نے جانوروں کے بھی حقوق بتائے اور ان کی خدمت کا بھی درس دیا ہے۔ نبی کریم ؐ کی آمد سے پہلے عرب میں بے زبانوں کے ساتھ سالوں سے جو ظلم ہو رہے تھے ،انہیں نبی کریم ؐ نے ختم کروایا ،آپ ﷺ سے آپ نے اس پہلے زندہ جانور وں کے جسم سے گوشت کے ٹکڑےکاٹ کر انھیں پکا کر کھاجاتے تھے۔ ؐ آپ نے روکا اور فرمایا :دُم ان کے سے منع فرمایا ،جانوروں کی دُم اور گردن کے بال کاٹنے سے ؐ لیے (مکھی اور مچھر سے بچانے کےلیے) پنکھا ہےا ور گردن کے بال ان کے لیے چادر ہیں، 63 64 65 66 67 مسند احمد ،ج ،6:ص367: ڈاکٹر محمد حمید اہللا،رسول اکرم ﷺکی سیاسی زندگی،ص ١۰۴ صحیح بخاری ،باب الساعی علی االرملۃ ،ح 6006 مشکواة المصابیح ،باب الشفقہ 423/1 ،بحوالہ احمد والترمذی ڈاکٹر بشیر احمد رند ،تصوف قرآن و حدیث کی روشنی میں ،اورینٹل کالیج میگزین،آکتوبر تا دسمبر ،2013ج ،88ش ،330ص129 اسالمیات باب سوم :معروضی مسائل جانوروں پرسازو سامان رکھ کر دیر تک کھڑا رکھنے سے بھی منع کیا اور فرمایا :جانوروں کی پیٹھوں کو اپنی کرسیاں مت بناؤ (کہ جانوروں پر بیٹھ کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہو) اسی طرح جانوروں کو آپس میں لڑوانے سے بھی منع فرمایا۔ ایک بے رحمی کا دستور تھا کہ کسی جانور کو تھے۔آپ نے ایسی سنگ دلی باندھ کر اسے نشانہ بناتے تھے اور اس پر تیر اندازی کی مشق کیا کرتے ؐ آپ نے ایک سفر میں ایک صحابی رضی ہللا عنہ کو دیکھا کہ وہ چڑیا سے قطعی طور پر منع فرمایا۔ ؐ آپ نے اس صحابی کو حکم دیا کہ چڑیا کا کا انیہ اٹھا آلئے تھے ،چڑیا بےقرار ہوکر پر مار رہی تھی۔ ؐ انیہ واپس اسی جگہ پر رکھ آؤ۔ آپ ؐ نے ایک صحابی کی چادر میں چڑیا کےبچے چھپے ہوئے دیکھے آپ نے اس اور ان کی ماں کو اس صحابی کے چاروں طرف بے قرار ہوکر چکر کاٹتے دیکھا ،تو ؐ آپ نے راستے میں صحابی کو ہدایت کی کہ اس کے بچے واپس اسی جگہ پر رکھ کر آؤ۔ ایک دفعہ ؐ آپ نے فرمایا :ان ایک ایسا اونٹ دیکھا جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے پیٹھ سے لگ چکا تھاؐ ، آپ نے ایک جانوروں کے بارے میں خدا سے ڈرو۔ جانوروں کو آرام پہنچانے کی ترغیب دیتے ہوئے ؐ واقعہ سنایا" ایک شخص سفر میں تھا ،اس کو پیاس لگی ،کنواں دیکھ کر اس میں اتر گیا۔ پانی پی کر باہر نکال تو باہر ایک کتا دیکھا جو پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی چوس رہا تھا ،مسافر کنویں میں اترا، اپنا موزہ پانی سے بھرکر باہر لے آیا ،اور کتے کو پال کر اس کی پیاس بجھائی۔ خدا کی بارگاہ میں اس کا یہ عمل اتنا مقبول ہوا کہ اس کی بخشش ہوگی ،صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین نے عرض کیا، آپ نے فرمایا :ہر جاندار کی خدمت میں اجر ہے"۔ایک کیا جانوروں کی خدمت میں بھی اجر ملے گاؐ ، دوسری روایت میں آپ ﷺ نےفرمایا :ایک عورت نے بلی کو باندھ دیا پھر نہ اسے پانی پالیا اور نہ اسے کھانا کھالیا ،اور نہ اسے آزاد چھوڑ دیا کہ زمین سے کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی زندگی بچاتی، وہ بھوک اور پیاس میں تڑپ تڑپ کر مرگئی ،جس کی وجہ سے ہللا نے اس عورت کو دوزخ میں بھیج 68 دیا۔ ذکر کردہ اسالمی تعلیمات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسالم کی نظر میں خدمت خلق کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن آج اس شعبے میں ہم مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ فطری دستور ہے کہ جب کوئی جگہ خالی چھوڑدی جاتی ہے تو وہ جگہ کوئی نہ کوئی پُر کردیتا ہے۔ آج N.G.Osکے نام سے غیر مسلم یہ کام کررہے ہیں ۔ پھر خدمت خلق کے نام پر وہ اپنی تہذیب اور اپنا کلچر بھی ہم پر مسلط کر رہے ہیں اور ہم صرف اس گلے شکوے میں پورے ہیں کہ N.G.Osنے ہمارے ایمان ،اخالق اور تہذیب کو تباہ کردیا ہے۔ اس کا اصلی حل تو یہی ہے کہ یہ کام ہم خود کریں ،تا کہ کسی غیر کو ہماری تہذیب تباہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ 68 ندوی سید سلیمان ،سیرت النبی169/6،۔171